Jan 14

Click here to View Printed Statement

سعودی عرب اور ایران کے درمیان مخاصمت آج کا نہیں برسوں پُرانا معاملہ ہے۔ کبھی یہ مخالفت کم ہوجاتی ہے اور کبھی عروج پر پہنچ جاتی ہے۔بدقسمتی سے آجکل دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف تابڑ توڑ سفارتی اور سیاسی حملے کر رہے ہیں۔ جب بھی سعودی عرب اور ایران آپس میں ناراض ہوتے ہیں یا ان کی باہمی چپقلش خطرے کے نشان سے آگے بڑھتی ہے مسلم اُمہ کے ماتھے پر خوف کے پسینے تیرنے لگتے ہیں۔ چونکہ مسلم ممالک کے اندر شیعہ سنی جھگڑے ہوتے آئے ہیں اس لئے عام مسلمان ڈرنا شروع کر دیتا ہے کہ کہیں دو ملکوں اور حکومتوں کی باہمی رنجش مسلکی تفریق میں تبدیل نہ ہوجائے۔ باقی ممالک کا تو علم نہیں لیکن پاکستانی بہت سہمے ہوئے ہیں۔ اسی خوف کا اظہار حزب اختلاف کے تمام رہنماﺅں نے کیا ہے‘ اسی طرف جناب عمران خان نے توجہ دلائی ہے اور یہی خوف حکومت کو کسی واضح لائحہ عمل پر چلنے نہیں دے رہا۔ ہمارے ہاں یہ تصور پختہ ہوگیا ہے کہ ایران اہل تشیع کا نمائندہ ملک ہے اور سعودی عرب اہل سنت کا محافظ ہے۔ Continue reading »

written by host

Jun 22

تقوے کا فوری ذریعہ۔ روزہ

Azadi, Business Times, Jammu Kashmir, Kashmir Link, News Mart Comments Off on تقوے کا فوری ذریعہ۔ روزہ

Click here to View Printed Statement

قارئین اکرام اور پیارے روزہ دار بہن بھائیو! چودہ صدیوں سے مسلم امہ ماہ صیام میں روزہ کی نعمت سے لطف اندوز ہورہی ہے۔ ہر سال رمضان المبارک میں ہم سحری سے افطاری تک روزہ رکھتے ہیں اور ہم سب کی کوشش ہوتی ہے کہ ہم قرآنی حکم اور اسوہ رسول ۖ کی روشنی میں اپنی اس عبادت کو جاری رکھیں ۔مجھے یقین ہے کہ آپ روزہ اور اس کی اہمیت اور اس کی برکات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ چونکہ تذکیہ سے ایمانی تقویت حاصل ہوتی ہے اس لئے اللہ کی طرف سے عطا کی گئی اس خوبصورت عبادت کے مختلف پہلوئوں کا اس حوالے سے جائزہ لیں گے۔
یہاں میں یہ بھی واضح کردوں کہ تقویٰ کے حوالے سے مختلف تشریحات ہمارے سامنے ہیں۔ تقویٰ کسی مومن کی وہ دماغی حالت ہے جہاں انسان کے اندر ارادے کی ایسی قوت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ برائی سے دور بھاگتا ہے اور اچھائی کی طرف لپکتا ہے۔ ہم آج اس نشست میں یہ دیکھیں گے کہ تقویٰ کی منزل کے حصول میں روزہ کس طرح مدد کرتا ہے ۔صیاّم کا لفظی ترجمہ ٹھہرجانے کا ہے۔”رک جانے” کو صوم کہا جاتا ہے۔ اگر آپ چل رہے ہیں تو رک جائیں۔آپ کھا رہے ہیں تو رک جائیں۔آپ پی رہے ہیں تو رک جائیں’آپ سوچ رہے ہیں تو رُک جائیں’آپ سن رہے ہیں تو رُک جائیں ‘آپ دیکھ رہے ہیں تو رُک جائیں۔
روزہ آپ کو روک دیتا ہے۔اگر کوئی شخص بُرے کام کے ارادے سے چل رہا ہے تو روزے دار کو حکم ہے کہ وہ برائی کی طرف قدم نہ بڑھائے۔اگر کوئی کھا پی رہا ہے تو روزہ رکھنے کے بعد دن کے خاص وقت تک کھانا پینا نہیں ہے۔ اگر کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے سوچ رہا ہے تو روزہ اسے ایسی سوچ ترک کرنے کی شرط لگاتا ہے۔اگر جھوٹ بول رہا ہے’واہیات بول رہا ہے ‘گالی دے رہا ہے تو روزہ کی حالت میں اسے ایسے بول بولنے سے روک دیا جاتا ہے۔ اگر وہ کوئی غیر شرعی باتیں سن رہا ہے تو روزہ دار کانوں کو بند کر لیتا ہے۔ Continue reading »

written by host

May 06

Click here to View Printed Statement

ضد کا کوئی علاج نہیں۔محض احتجاجی سیاست کی بُنیاد پر قد بڑھانے ہوں تو یہ مُلک اس طرز سیاست کے لئے بہت ہی زرخیز ہے۔لیکن اگر واقعتا مقصد کاروباری ترقی اور ذہنی و سماجی سکون ہے تو پھر یہ فلسفہ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ رات آٹھ بجے مارکیٹیں بند کرنے سے بزنس کمیونٹی تباہ ہوجائے گی۔ دنیا بھر کے اوقات کار کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ روزانہ آٹھ گھنٹے کا کام ایک نارمل لائف اسٹائل کے لئے بہترین ٹائم ٹیبل ہے۔ مزدور اور کارکن کے بنیادی حقوق بھی یہی طے ہوئے ہیں کہ آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام نہ لیا جائے ۔پاکستان ایسے خوش نصیب ملکوں میں شمار ہوتا ہے جہاں اوقات نماز کی پابندی ہماری عمومی زندگی کا حصہ ہے۔ Continue reading »

written by host

Jul 13

Click here to View Printed Statement

پہلے رمضان کو سٹوروں پر’پھل فروشوں کے پاس اور دُکانوں پر بے پناہ رش نظر آیا۔ ہر شخص زیادہ سے زیادہ سامان خوردونوش خریدنے میںجُتا ہوا تھا۔ جس کو ایک تھیلے آٹے کی ضرورت تھی اس کی کوشش تھی کہ وہ پورا یوٹیلٹی سٹور ہی اٹھا کر لے جائے۔جسے روزہ افطار کرنے کے لئے چند کھجوریں دکار تھیں وہ بھی کلو سے کم نہیں لے رہا تھا۔ٹماٹر کے بغیر بھی ہنڈیا چڑھائی جاسکتی ہے لیکن ہر خریدار ٹماٹروں کو یوں للچائی ہوئی نظرو سے گھور رہا تھا گویا اسے زندگی بھر یہ سوغات میسر نہ آسکے گی۔ہر کوئی رمضان کے پورے مہینے کی خریداری کر لینا چاہتا تھا۔ غریب اور امیر کے درمیان صرف قوت خرید کا فرق دیکھا ہے باقی ذخیرہ اندوزانہ طرز فکر میں ذرہ برابر فرق محسوس نہیں ہوا۔ماہ صیام کے بارے میں قرآن پاک میں جو حکم ہوتا ہے

Continue reading »

written by host

Jun 25

Click here to View Printed Statement

سستی روٹی کی سکیم چلانے والوں نے ایک سو اسی درجے کی ”کلٹی” ماری اور روٹی کی موجودہ قیمتوں پر بھی ایک فیصد جی ایس ٹی کا نفاذ کر ڈالا۔یہ تو بھلا ہو آزاد عدلیہ کا کہ جناب چیف جسٹس نے عوام کے ساتھ یہ ہاتھ ہونے نہیں دیا اور یوں غریب آدمی کی دال ‘روٹی ‘ آلو پیاز’مرچ ‘برف اور باردانہ آئی ایم ایف کی دستبرد سے بچ گئے ورنہ میاں محمد نوازشریف کے قرابت دار ماہرین اقتصادیات نے تو”خونی انقلاب” کی بنیاد رکھ دی تھی۔اس میں کیا شک ہے کہ ملک کے اقتصادی حالات کسی طرح کنٹرول میں نہیں آرہے۔ آئی ایم ایف کڑی شرائط کا تقاضا کرتا ہے اور عوام کے بدن سے مزید خون نچوڑنے کے مختلف طریقے آزمانے پر آمادہ کرتا ہے۔قومی خزانہ ”بڑے حاجی صاحب” اور ان کے وزراء اعظم اور نوسرباز دوست پہلے ہی خالی کرکے جاچکے ہیں۔پاور پلانٹس بجلی پیدا کرنے کے لئے پانچ سو ارب روپے مانگ رہے ہیں

Continue reading »

written by host

May 13

Click here to View Printed Statement

بڑے دِل گُردے کی بات ہے۔دہشتگردی نے کتنے گھر اُجاڑ دیئے۔کوئی مقام ایسا نہیں جہاں خون نہ بہایا گیا ہو۔خون بہانے والے کھل کر کھیلے اور آئندہ بھی شائد وہ غارت گری کی اسی راہ پر چلتے رہیں۔کوئی بھی ایسی سیاسی پارٹی نہیں جس کے جسد کو بموں اور گولیوں نے چھلنی نہ کیا ہو۔کوئی بڑی سیاسی شخصیت ایسی نہیں جسے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر خوف میں مبتلا نہ کیاگیا ہو۔عام پاکستانی جلسے جلوس میں جانے سے پہلے کئی بار سوچتا رہا کہ وہ واپس آئے گا بھی یا نہیں۔انتخابات کی گہماگہمی اوربموں کی پوچھاڑ ساتھ ساتھ چلتی رہی۔بمبار ہارے نہ ہی عوام نے حوصلہ چھوڑا۔اتنے بڑے خطرات مُول لیکر اس انتخابی نظام میں لوگ آخر کیوں حصہ دار بنے۔

Continue reading »

written by host

Mar 26

Click here to View Printed Statement

ہمیںپی پی حکومت کا مشکور ہونا چاہیے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح کی سالگرہ سرکاری طور پر منانے کا اہتمام ہوا ہے۔
گزشتہ 65 برسوں میں ہم نے اتنے قائد بنا لئے ہیں کہ اپنے اصل قائد کو بھول ہی گئے ہیں۔ بلکہ آمریتوں کے ادوار میں جان بوجھ کر قائداعظم کی سالگرہ اور برسیوں پر خاموشی اختیار کی گئی۔ پرویز مشرف کے دور میں آمریت کے کاسہّ لیس اورشاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروںنے پاکستان کے کرنسی نوٹوں سے بانی پاکستان کی تصویر ہٹا کر جنرل پرویز کی تصویر لگانے کا پورا منصوبہ بنالیا تھا۔ نمونے کے طور پر ایسے نوٹ تیار بھی ہوگئے تھے۔آج بھی قائداعظم کی ذات اور ان کے افکار کو متنازعہ بنانے کا ٹھیکہ لنڈا بازار کے دانشوروں کو دے دیا گیا ہے۔ ایسی ایسی بولیاں سنائی گئیں کہ کان پھٹنے کو آگئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانان ہند نے یہ ملک مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ چند امریکی غلاموں کی ناجائز خواہشوں کی بارآوری کیلئے بنایا تھا۔
”پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ اللہ” والے نعرے کا تمسخر اڑایا جارہا ہے۔ اسلام کا حوالہ مٹانے کی ہر کوشش کی جارہی ہے۔ ایک گروپ نے امریکیوں کے اشارے پر ”اسلامی جمہوریہ پاکستان” میں سے اسلام کا لفظ حذف کرنے کی رٹ لگانا شروع کررکھی ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ہمارے دوست کالم نگار بیگ راج نے کہیں لکھ دیا ہے ”اگر آج قائداعظم زندہ ہوتے…” تو بگرام ایئربیس پر امریکیوں کی قید میں ہوتے”

Continue reading »

written by host

Dec 29

Click here to View Printed Statement

”بعض حلقوں کا خیال ہے کہ جناب ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے انتخاب سے پہلے اصلاحات کی مہنگی ترین مہم میں تیس کروڑ روپے سے زائد خرچ کی جانے والی بھاری رقم جناب آصف علی زرداری کی وساطت سے ملی ہے۔اگر ایسا ہے تو ہم صدر پاکستان سے دست بستہ عرض کریں گے کہ وہ جناب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب پر مذید سرمایہ کاری کرنے  سے پہلے جناب میاں محمد نوازشریف سے ان کے بارے میں ضرور پوچھ لیں۔ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں ان کے بعض دیرینہ دوستوں کا خیال ہے کہ شیخ الاسلام کی جسامت دھوکہ دیتی ہے۔ہاتھی کے دانت کھانے کے اور اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔محترم قادری صاحب بہت کچھ کھا جانے کے بعد بھی اڈکار نہیں لیتے اور ان کی خوش خوراکی کا عالم یہ ہے کہ وہ نہ نہ کرتے دسترخوان کے دستر خوان خالی کر جاتے ہیں۔یہ چھ سات برس پہلے کی بات ہے

Continue reading »

written by host

Dec 11

Click here to View Printed Statement

راتوں رات تبدیلی نہیں آسکتی۔ سالوں سال بھی تبدیلی شائد نہ آسکتی ہو، لیکن یہ تو نصف صدی پر محیط المیوں اور قومی سانحوں کا دلخراش سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ فوج اور سیاستدان۔ سیاستدان اور فوج۔ دونوںایک دوسرے کیلئے میدان سجاتے رہے ہیں’ ایک دوسرے کیلئے جواز پیدا کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب کی بار سیاستدان خاصے ہوشیار دکھائی دے رہے ہیں۔ جناب ڈاکٹر علامہّ طاہر القادری صاحب ” سیاست نہیں ریاست بچائو”کا نعرہ لے کر میدان میں اترے ہیں اور وہ ریاست بچانے کیلئے اُسی طاقت کو بُلا رہے ہیں

Continue reading »

written by host

Nov 30

Click here to View Printed Statement

امریکی پالیسی سازوں کو خوش ہونا چاہے کہ انہوں نے ٹھیک کر دینے کے جو فارمولے پاکستان پر آزمائے ہیں وہ پوری طرح کارآمد ثابت ہوئے ہیں اور نتجتاََ یہ ملک اب دُنیا کا ساتواں بدعنوان اور غیر محفوظ مُلک بن چُکا ہے ۔ مالی طور پر غریب ترین، انتظامی طور پر کرپٹ ترین، عدلیہ ناکام ، انتظامیہ بے جان کم از کم اب یہ ایسا مُلک نہیں رہا  جہاں سکون سے سویا جا سکتا ہو، جہاں رشوت دئیے بغیر بچہ سکول داخل کرایا جا سکتاہو۔ غیر محفوظ اس قدر کی جھاڑیاں بھی دہشت گرد دکھائی دیتی ہیں۔ ہر طرف خون ہے، خوف ہے، بھکاری ہیں، بھوک ہے۔ قدم قدم پر نا انصافی ہے، انا رکی ہے، خانہ جنگی ہے اور جنگی مزاج ہے!نائن الیون کو ٹوئن ٹاورزاڑانے والوں میں ایک بھی پاکستانی نہیںتھا لیکن 2002ء کے بعد سے اب تک ہر پاکستانی کو نفسیاتی ، مالی اور ثقافتی طور پر اذیتناک سزادی گئی ہے اور دی جا رہی ہے۔ پہلے والے زخم مند مل ہونے کا نام نہیں لیتے اور اَب یہی امریکہ پاکستانی قوم کو”تعلیم یافتہ” بنانے پر تُل گیا ہے۔ یوایس ایڈ اب ایسی قوم کو تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کرنے جا رہی ہے جس کا آغاز ہی ”اقرائ” سے ہوا تھا ۔ دس برس بیت گئے ،بجلی ناپید ، گیس غائب، روزگار روٹھ گئے خُدا جانے امریکی ڈالرز جاتے کہاں ہیں۔ سو ڈالر آتا ہے اور ڈیڑھ سو ڈالرز نچوڑ لئے جاتے ہیں۔ جب امریکہ جیسا مُلک دوست ہو تو پھر دشمن کی ضرورت ہی کیا ہے۔

Continue reading »

written by host

Sep 22

Click here to View Printed Statement

پاک بھارت دوستی کی اس قدر دھول اڑائی جارہی ہے کہ دوست دشمن کا چہرہ  پہچاننا مشکل ہوگیا ہے۔سرکاری ٹی وی پر بھی بھارتی اشتہارات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔کترینہ کیف اور سیف ہمارے ٹی وی چینلز کے اندر خون بن کر دوڑ رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری سوچ اور عقل کے سارے دھارے اب سرحد پار سے پھوٹتے ہیں اور ہم یہاں بیٹھے انہی لفظوںاورانہی استعاروں کی مالا جپتے اور ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ہمارا مقبول ترین سلوگن اب ”نچ لے” بن چکا ہے۔ملی غیرت اور قومی حمیت جیسے الفاظ لکھنے اور بولنے پر دْشنام طرازیوں کے پے در پے وار سہنے پڑ رہے ہیں۔”چھڈوجی پاگل جے” یہ ہے بھارت نواز دانشوروں کی وہ پھبتی جو ”امن کی آشا” اور ”مفادات کی فحاشہ” پر تنقید کرنے پر کسی جاتی ہے۔امن کس کو نہیں چاہیے؟پاکستانیوں کو امن کی جس قدر ضرورت ہے شائد دنیا کی کسی اور قوم کو ہو۔ جہاں ہرروز خون بہتا ہو’لاشے گرتے ہوں’ روحیں تڑپتی ہوں اور بے یقینی ایمان شکنی کی حدیں چھونے لگے وہاں امن کی خواہش کون نہیں کرے گا۔ہمسایوں کے ساتھ پْرامن رہنا ہمسایوں سے زیادہ ہماری ضرورت ہے۔لیکن کیا لفظ امن امن کی گردان کرنے سے امن قائم ہوجاتا ہے؟ آزمودہ قول ہے کہ ظلم اور امن ایک جگہ اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ظلم رہے اور امن بھی ہو یہ ناممکنات میں سے ہے۔مظلوم وقتی طور پر ظلم کے سامنے دب سکتا ہے۔

Continue reading »

written by host

Sep 03

Click here to View Printed Statement

کالاباغ ڈیم کی مخالفت تکینکی نہیں بلکہ سیاسی بنیادوں پر کی جا رہی ہے جس میں بھارت کی سازشوں کابھی ہاتھ ہے۔ دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی جانب سے قرض دینے سے انکار کے بعد کالاباغ ڈیم توانائی کے بحران کا واحد حل ہے جس کے لئے عالمی ادارے قرض دینے کو تیار ہیں۔ اے این پی کی قیادت اب پنجاب دشمنی چھوڑ دے ۔خیبر پختون خواہ کے باشعور عوام اے این پی کی قیادت پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے دبائو بڑھائیں تاکہ ملک کے علاوہ ان کی آنے والی نسلیں خوشحال ہو سکیں۔ اس سلسلہ میں پشاور اور دیگر علاقوں سے آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔اس ڈیم کی تعمیر سے پنجاب میں آباد لاکھوں پشتون بھائیوں کا بھی بھلا ہو گا۔خیبر پختونخواہ اور سندھ کالاباغ ڈیم بننے سے نہیں بلکہ نہ بننے سے بنجر ہو جائیں گے۔بھاشا ڈیم سے کوئی نہر نہیں نکل سکے گی جبکہ کالا باغ ڈیم سے نہروں کا جال بچھ جائے گا۔ کالاباغ ڈیم سے غریب عوام کی ستر لاکھ ایکڑ بنجراراضی کو پانی ملے گا Continue reading »

written by host

Jul 25

Click here to View Printed Statement

مجھے”میڈیا ایتھکس” کے عنوان سے ہی اختلاف ہے’ کیونکہ کسی پراڈکٹ کی کوئی اخلاقی یا غیر اخلاقی قدریں نہیں ہوتیں ‘اقدار کا تعلق اس پراڈکٹ کے خالق کے قلب وذہن سے ہوتا ہے۔ اس لئے آج کے سیمینار کا موضوع اگر ”اہل صحافت کی اخلاقی قدریں” یعنی ”جرنلسٹک ایتھکس” ہوتا تو یہ زیادہ موزوں اور عام فہم ہوتا۔میڈیا نے کس طرح فروغ پایا اور اس کی تدریجی تاریخ کیا ہے میں اس لاحاصل بحث میں الجھ کر اپنا اور آپ کاوقت ضائع نہیں کروں گا۔میرے آپ اور اس سماج کے لئے اہم یہ ہے کہ آج ”میڈیا” کس بلا کا نام ہے اور اس کے متاثرین کی حالت زار کیا ہے۔کبھی ہمارے سماجی رویوں سے ظاہر ہوتا  تھا کہ ہر شریف آدمی پولیس سے خوفزدہ  ہے۔

Continue reading »

written by host

Jun 22

Click here to View Printed Statement

ذاتی مفادات کیلئے بااثر لوگ کس طرح قومی اداروں کو تباہ کرتے ہیں اس کی تازہ جھلک انجمن ہلال احمر پاکستان (پاکستان ریڈکریسنٹ سوسائٹی)کے نیشنل ہیڈکوارٹرز کے اندر ملازمین کے ایک گروپ کی طرف سے ہفتوںجاری  رہنے والی سیاسی ہلڑ بازی ہے ۔اسلام آباد کے سیکٹر ایچ ایٹ میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے کارنر میں انسانی خدمت کے اس عظیم ادارے کا ہیڈ آفس واقع ہے۔2005ء کے زلزلہ کے دوران اس ادارے نے لوگوں کو امدادی سامان پہنچانے اور گرے ہوئے سکول و کالج بنانے میں عالمی شہرت حاصل کی تھی اور اس ادارے کی خدمات کو اخبارات میںسراہا بھی گیا تھا۔آئی ڈی پیز اور سیلاب زدگان کے لئے بھی یہ ادارہ پیش پیش رہا تھا ‘ اس لئے نیشنل ہیڈکوارٹرز میں ہڑتال اور احتجاج کا سن کر میں ہکا بکا رہ گیا۔

Continue reading »

written by host

Jun 21

Click here to View Printed Statement

لوڈشیڈنگ کے ستائے عوام نے حکمران مافیا کے گھروں پر یلغار شروع کردی ہے۔ایسے تمام گروہ’ادارے اور افراد جو اس باطل جمہوری نظام کو اٹھارہ کروڑ عوام پر مسلط کرنے میں براہ راست ملوث ہیں ان کے گھروں کو جلا ڈالنا چاہیے یہ گروہ ہے جو انسانیت کے نام پر دھبہ ہے ‘انسانی ضرورتوں کا قاتل ہے ‘انسانی جذبوں کے لئے توہین کی علامت ہے یہ ممبران پارلیمنٹ’ یہ سینیٹرز’ یہ سیاسی مچھندر’یہ واپڈا’ پیپکو یہ سب اسی قابل رہ گئے ہیں کہ روشنیاں چھیننے کے جرم میں ان کے وجود سے نجات حاصل کر لی جائے۔

Continue reading »

written by host

Jun 21

Click here to View Printed Statement

یوسف رضا گیلانی کو یقین تھا کہ وہ’ آرمی چیف اور چیف جسٹس 2013ء میں ایک ساتھ فارغ ہوں گے۔ اس یقین کا اظہار انہوں نے بارہا سرعام بھی کیا اور اپنے پسندیدہ بلکہ پروردہ صحافیوں کے ساتھ خصوصی ملاقاتوں میں بھی کیا۔ لیکن منگل 19جون 2012ء کی سہ پہر نے ان کی وزارت عظمیٰ ان سے چھین لی۔ عدالت عظمیٰ نے بالآخر ایک خوبصورت وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا۔ ایک ایسا شخص جن کا لباس انتہائی قیمتی تھا’جس کی اہلیہ لندن سے مہنگا ترین پرس خریدنے  میں بازی لے گئی تھی۔ جس کے تین جوڑوں کی قیمت 30لاکھ روپے تھے اور جس نے غریب  ترین ملک کا جمہوری وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی اپنے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ برقرار رکھے بلکہ مسند اقتدار پر جلوہ گر ہونے کے بعد اپنے پرشکوہ رہن سہن میں اضافہ کیا۔

Continue reading »

written by host

Jun 16

Click here to View Printed Statement

دولت کی چمک سے بچنا محال ہوجاتا ہے۔ جو لوگ دام پھینک کر وفاداریاں خریدنے کا دھندہ کرتے ہیں ان کو یقین کامل ہوتا ہے کہ ہر انسان کی ایک قیمت ہوتی ہے۔کامیاب بیوپاری وہ ہوتے ہیں جو بندے کے ماتھے اور آنکھوں سے بھانپ لیتے ہیں کہ ان کے مخاطب کی قیمت کیا ہوگی۔ رشوت لینا اگر ایک فن ہے تو رشوت دینا بہت بڑا فن ہے۔ہرکوئی صاحب ثروت رشوت دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس کار شیطانی کے لئے مہارت درکار ہوتی ہے ۔

Continue reading »

written by host

Jun 16

Click here to View Printed Statement

توانائی بحران کے حوالے سے اب کوئی دوسری رائے نہیں رہی۔ مشرف دور  کے آخری برسوں تک یہ سوچ جاری رہی کہ ملک میں بجلی اورگیس کی وافر مقدار موجود ہے اگر لائن لاسز اور چوری پر قابو پا لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم توانائی کی ضرورتوں کو پہلے سے موجود ذرائع کے ذریعے پورا کرسکتے ہیں۔ لیکن آج چار برس مزید گذرنے کے بعد یہ خوش فہمی بھی دور ہوگئی ہے۔بجلی چوروں کو لگام دینے کی بجائے آج کل ان کے ناز اٹھائے جارہے ہیں۔کراچی میں کنڈا سسٹم کوئی ختم نہیں کراسکتا۔ جنوبی پنجاب  کے بعض حصوں میں بھی بجلی چوری کا رجحان تیزی سے پھیل رہا ہے۔ سندھ کے اکثر دیہی علاقوں میں سال میں ایک بار بجلی کا بل آتا ہے جو ہزار دو ہزار سے زیادہ نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے سرکاری ادارے’وزیراعظم ہائوس ‘ ایوان صدر سب بجلی کے بلوں کے نادہندہ ہیں۔بجلی کے صارفین کا چالیس فیصد حصہ باقی ماندہ ساٹھ فیصد کا بھی بل ادا کرتا ہے۔

Continue reading »

written by host

Jun 08

Click here to View Printed Statement

JANG LAHORE

ایسا کبھی ہوا نہیں کہ دنیا سے شر مکمل طورپر ختم ہوگیا ہو۔انسان کے اندر شر کی قوتیں خیر کی طاقتوں سے ہمیشہ نبردآزما رہتی ہیں ۔آپ اسے حضرت انسان کی فطرت کہہ سکتے ہیں ۔ان شرانگیز طاقتوں کو آپ نیگیٹیو فورسز کا عنوان دے سکتے ہیں ۔قرآن انہیں شیطانی طاقتوں کا نام دیتا ہے ۔ہر منفی سوچ ،ہر تخریبی تصور ہر انسان دشمن منصوبہ ،ہرابلیسی حربہ چاہے اس کا محل وقوع انسان کی اپنی ذات ہو ،اس کا ماحول ہو،ملک ہویاسرزمین ہو

Continue reading »

written by host

Apr 26

Click here to View Printed Statements

پی پی پی سندھ کے معتوب رہنما ڈاکٹر ذوالفقار  مرزا نے قرآن کی قسم کھائی اور بار بار کہا کہ رحمن ملک سب سے بڑا جھوٹا ہے۔ وزیر داخلہ  کی دروغ گوئی کے بارے میں بلوچ رہنمائوں نے بھی بار بار شکایتیں کی ہیں۔کراچی والوں نے بھی ناراضگی اور غصے کے عالم میں وزیر داخلہ کو کئی بار جھوٹا ثابت کیا ہے۔اے این پی کے رہنمائوں نے بھی ایسے ہی القابات سے نوازا ہے۔ خدا جانے جناب رحمن ملک کے پاس کونسا جن ہے کہ وہ ہر واقعہ’ ہر حادثہ کی جذیات پر نہ صرف یہ کہ مکمل طور پرعبور رکھتے ہیں بلکہ آنے والے حادثات اور خودکش حملوں کی پیشگی اطلاعات بھی فراہم کر دیتے ہیں۔ شائد یہی ”دروغ گوئی” کا فن انہیں جناب گیلانی اور زرداری کے مزید قریب کردیتا ہے

Continue reading »

written by host