Jun 16

Click here to View Printed Statement

توانائی بحران کے حوالے سے اب کوئی دوسری رائے نہیں رہی۔ مشرف دور  کے آخری برسوں تک یہ سوچ جاری رہی کہ ملک میں بجلی اورگیس کی وافر مقدار موجود ہے اگر لائن لاسز اور چوری پر قابو پا لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم توانائی کی ضرورتوں کو پہلے سے موجود ذرائع کے ذریعے پورا کرسکتے ہیں۔ لیکن آج چار برس مزید گذرنے کے بعد یہ خوش فہمی بھی دور ہوگئی ہے۔بجلی چوروں کو لگام دینے کی بجائے آج کل ان کے ناز اٹھائے جارہے ہیں۔کراچی میں کنڈا سسٹم کوئی ختم نہیں کراسکتا۔ جنوبی پنجاب  کے بعض حصوں میں بھی بجلی چوری کا رجحان تیزی سے پھیل رہا ہے۔ سندھ کے اکثر دیہی علاقوں میں سال میں ایک بار بجلی کا بل آتا ہے جو ہزار دو ہزار سے زیادہ نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے سرکاری ادارے’وزیراعظم ہائوس ‘ ایوان صدر سب بجلی کے بلوں کے نادہندہ ہیں۔بجلی کے صارفین کا چالیس فیصد حصہ باقی ماندہ ساٹھ فیصد کا بھی بل ادا کرتا ہے۔

Continue reading »

written by host

Aug 04

Click here to View Printed Statements

جہاں روزانہ لاشیں گرتی ہوں‘خون بہتا ہو‘گولیاں سنسنا تی ہوں‘آگ بھڑکتی ہو اور آرزوئیں جلتی ہوں ‘وہاں کے رہنے والے کس ذہنی کرب سے گزرتے ہوں گے اس کا اندازہ لاہور اورا سلام آباد میں بیٹھنے والوں کو بمشکل ہی ہوگا۔مائیں اپنے بچوں کو امام ضامن باندھ کر باہر نکالتی ہیں کہ کہیں رقص کرتی موت ان کے لختِ جگر نور نظر کو اچک کر نہ لے جائے۔قاتل کے نزدیک کوئی تفریق نہیں۔عورت‘مرد‘بچہ‘بوڑھا‘مالک‘مزدور‘پٹھان‘مہاجر‘پنجابی‘ بنگالی سب گولی کے سامنے بے بس ۔کسی کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہی۔ Continue reading »

written by host

Aug 04

Click here to View Printed Statements

رجوع کرلینے پر کتنا خرچہ آتا ہے؟ زندگی تو گزر رہی ہے۔اس کے تمام لوازمات بھی کسی نہ کسی طور پر پورے ہورہے ہیں۔آخر انسان کو کبھی رک کر تھوڑی دیر ٹھہر کر اپنی منزل کا تعین کر لینا چاہیے۔اپنے سفر اور زادہ راہ کا جائزہ لے لینا چاہیے۔اگر کسی معاشرے کے افراد سدھر جائیں تو معاشرے کو سدھرنے سے کون روک سکتا ہے۔غریب آدمی سے اعلیٰ انسانی اخلاقیات کا تقاضا عبث ہے۔اسے تو شائد مجبوری ہو جھوٹ بولنے کی‘کام چوری کی۔ غیبت‘حسد اور بدکلامی ان لوگوں کامسئلہ ہی نہیں جنہیں پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے اسی دنیاوی جہنم سے ایندھن اکٹھا کرنا ہے۔میں اور آپ جنہیں قدرت نے خطہ غربت کے قریب جانے سے روک رکھا ہے Continue reading »

written by host

Jul 12

Dr Murtaza Mughal’s column (Moonis Elahi Ghabrana Nahin)

Which also mentions

Moonis Elahi, PML(Q), Mian Nawaz Sharif, Chaudhry Shujaaat Hussain, Majid Nizami

Click here to View Printed Statements

بالآخر میاں محمد نوازشریف نے اپنے اصولوں کو قربان کر ہی دیا۔مخالفین کہتے ہیں کہ ایم۔کیو۔ایم کی واحد خوبی یہ ہے کہ اس جماعت نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے اقتدار کی مضبوطی اور طوالت کیلئے برسوں اپنے کندھے پیش کئے رکھے۔یہ وہی جماعت ہے جسے سابق صدر اپنی”عوامی طاقت“ قرار دیتے تھے۔مجھے یہاں ایم۔کیو۔ایم کی کمزوریاں شمار کرنا مقصود نہیں۔حیرت میں ڈوبا ہوں کہ کس طرح میاں نوازشریف اور جناب الطاف حسین باہم شیروشکر ہوتے جارہے ہیں۔کون کس کو دھوکہ دے رہا ہے اس بارے کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی ۔ایک دوسرے کے ماضی کو بھول جانے کے عہدوپیماں باندھے جارہے ہیں۔رائے ونڈ اورنائن زیرو کے درمیان فاصلے مٹتے جارہے ہیں۔ Continue reading »

written by host

Jul 01

Click here to View Printed Statements

کبھی پاکستان کی ترقی کی رفتار دنیا بھر میں سب سے زیادہ تھی۔ 1960ءکے عشرے میں پاکستان کے ماہرین اقتصادیات نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ساﺅتھ کوریانے بغیر کسی جھجھک کے پاکستان کے اقتصادی ماڈل کی نقل تیار کی اور اپنے ملک کو پاکستانی قدموں پر قدم رکھ کر چلانا شروع کردیا۔متاثر ہونے کی بھی حد ہوتی ہے۔ سئیول شہر کوبھی کراچی کی طرز پر بسایا گیا ۔وہ جوہمیںماڈل سمجھ کر ہمارے پیچھے چلے تھے وہ آگے بڑھتے گئے اور ہم روز بروز پیچھے کی طرف سرکتے گئے۔ آج ہم کہاں اور ساﺅتھ کوریا کہاں کھڑا ہے! کوئی تقابل ہی نہیں کوئی موزانہ زیب نہیں دیتا۔آج ہماری ترقی کی رفتار2.2 فیصد پر آکر ایسے رکی گویابریکیں لگ گئیں۔ ہزار دھکے مارو لیکن زمین جنبد نہ جنبد گل محمد Continue reading »

written by host

Jun 30

Click here to View Printed Statements

لوڈشیڈنگ کی طوالت بڑھتی جارہی ہے۔ بل ہےں بجلی نہیں اور جب بجلی کی بجائے بلبلا دینے والے بل موصول ہوتے ہیں تو بغاوت کرنے کو دل مجبور ہوجاتے ہیں۔ پھر ”لیسکو“ ہو یا ”آئیسکو“ مضبوط گیٹ بھی ٹوٹ گرتے ہیں‘ پولیس بے بس ہوجاتی ہے اور غضبناک نفرتوں کے سامنے کوئی دلیل ٹھہر نہیں پاتی۔

آبادی کی رفتار تیز تر ہے۔ بجلی کی پیداوار کے جو منصوبے چھ کروڑ صارفین کو سامنے رکھ کر بنائے گئے تھے وہ اٹھارہ کروڑ لوگوںکی ضروریات کیسے پوری کرسکتے ہیں؟ حکمرانوںنے سنجیدگی سے اس مسئلہ کی طرف توجہ ہی نہیں کی۔ جن مقتدر طبقات نے توانائی کے بحران پر قابو پانے کی پلاننگ کرنا تھی ان کے ہاں بجلی جاتی ہی نہیں۔ ان کے ایئرکنڈیشنڈ چلتے رہتے ہیں۔دیوہیکل جنریٹر چوبیس گھنٹے سٹینڈ بائی پوزیشن میں موجود ہیں۔ ادھر واپڈا والوں نے سوئچ آف کیا ادھر ڈیزل اور پٹرول پھونکنے والے جنریٹر بجلی اگلنا شروع کردیتے ہیں۔ بڑے لوگ صرف اتنا پوچھتے ہیں”جنریٹر سے ہے یا واپڈا سے؟ اور بس! یہ ہے ان کی کل پریشانی۔ باقی پریشانیاں صرف عوام اورفیکٹری مزدوروں کے حصے میں آتی ہیں۔ملک پہلے ہی قرضوں پر چل رہا ہے۔ صنعت وحرفت کا پہیہ چلے نہ چلے‘حکمرانوں کا پہیہ رکتا ہی نہیں!

تمام رکاوٹوں اور حوصلہ شکنیوں کے باوجود بعض ادارے اور افراد اپنے طور پر قومی خدمت کے منصوبوں کو کامیاب کر گزرتے ہیں۔پاکستان میں حکومتیں ناکام اور انفرادی طور پر کام کرنے والے پاکستانی اور ان کے ماتحت چلنے والے ادارے بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ذرائع ابلاغ کو ایسے تعمیری کاموں کی تشہیر کرنے کی فرصت ہی نہیں۔ یہ اصحاب یقین خود بھی پبلسٹی کی بیماری سے کوسوں دور ہیں اور بڑی خاموشی کے ساتھ کام میں مگن رہتے ہیں۔ Continue reading »

written by host

Jun 23

Click here to View Printed Statements

قارئین سے التماس ہے کہ وہ سیاسی رہنماﺅں کی ایک دوسرے کے خلاف لسانی ”بدکاریوں“ سے خوفزدہ نہ ہوں۔کسی قسم کا کوئی سیاسی بھونچال آرہا ہے نہ ہی کوئی ”انقلاب“ دروازے پر کھڑا بے چین ہورہاہے۔گرمی اور حبس کے اس موسم میں سیاسی اکھاڑے کو غنیمت سمجھ کر جگت بازیوں اور جملہ آزمایوں سے صرف لطف اندوز ہونے کا سلیقہ سیکھیں تو انشاءاللہ فشار خون مستحکم رہے گا اور شوگر بھی کنٹرول میں رہے گی۔اگر اس لفظی جنگ کو اصلی سمجھ لیا جائے تو پھر کمزور دل حضرات کو لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ قومی غم کے جھٹکے بھی لگنے شروع ہوجائیں گے اور یوں شدت الم کے دورے پڑنے کا خطرہ رہے گا۔

Continue reading »

written by host

Jun 09

Views of Dr Murtaza Mughal on Chaudhry Shujaat

Click here to View Printed Statements

کریڈٹ دیا جانا چاہیے۔ذاتی پسند وناپسند کی بنیاد پر کسی پارٹی یا شخص کے اچھے اقدام کو ناقابل ذکر ٹھہرا دینا دانشمندانہ بخیلی کہلائے گی۔افسوس کے ذرائع ابلاغ کے غالب حصے نے چوہدری شجاعت کے قومی نوعیت کے فیصلوں پر مسلسل بخیلی بلکہ بعض اوقات کمینگی کا مظاہرہ کیا ہے۔مفادات کس کے نہیں ہوتے؟۔سیاست کا مقصد ہی اقتدار تک پہنچنا اور اپنے سیاسی فلسفے کے مطابق مملکت کے معاملات کو چلانا ہوتا ہے۔اگر چوہدری برادران نے پی پی پی کے ساتھ اتحاد کیا ہے اور حکومت کا حصہ بن گئے ہیں تو انہوں نے ایسا کونسا جرم کیا ہے جس سے باقی ”فرشتہ سیرت“سیاسی پارٹیاں مبّرا ہیں۔محرومین اقتدار کا پرابلم بھی اقتدار ہے اسی لئے وہ اہل اقتدار کیخلاف ”ذاتی مفادات“ کا ڈھنڈورا پیٹتے تھکتے نہیں۔ذاتی اور قومی مفادات بھی عجیب گورکھ دھندا بنا دیئے گئے ہیں۔”ذاتی مفادات“ ایک ایسی اصطلاع ہے جو ایوان اقتدار سے باہر بیٹھے امیدوارانِ اقتدار پر بھی پوری طرح ”فٹ“آسکتی ہے اور ”قومی مفادات“ ایک ایسا رویہّ ہے جو اقتدار میں رہتے ہوئے بھی اپنایا جاسکتا ہے۔سارا معاملہ نیتوّں کا ہے۔ٹی وی پروگراموںمیں کھپ ڈالنے سے نیتوں کے فتور دور نہیں کئے جاسکتے! Continue reading »

written by host

May 28

Click here to View Printed Statements

تنقید برائے تنقید نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے آئندہ امریکی امداد نہ لینے کا اعلان کرکے صرف صوبہ پنجاب ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے غیور عوام کے دلوں کی ترجمانی کردی ہے۔ہوسکتا ہے کہ ”سستی روٹی سکیم“ اور ”دانش سکولوں“ کے قیام کی طرح جناب شہباز شریف کا یہ اعلان بھی محض اپنے بکھرتے ہوئے ووٹ بینک کو متحد رکھنے کی کوشش ہو لیکن نتیجہ جو بھی نکلے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں غیر ملکی امداد سے چھٹکارے کا یہ تصور اس قدر خوش آئند ہے کہ شریف برادران کی داد و تحسین کئے بغیر رہا نہیں جاسکتا۔ یوں تو ”قرض اتارو ملک سنوارو مہم“ بھی معاشی خودمختاری کے حصول کی خواہش کے تابع ایک کوشش تھی لیکن تمام ترغیبات کے باوجود بھی قرض اتارنے کے لئے رقم جمع نہ ہوسکی اور جو رقم جمع ہوئی وہ شائد اس قابل بھی نہیں تھی کہ اس کا ذکر کوئی حوالہ بن سکتا۔ Continue reading »

written by host

Apr 18

Click here to View Printed Statements

بعض اوقات پانی جنگلی گھاس کے اندر سے گزر رہا ہوتا ہے اور دیکھنے والا محسوس کرتا ہے کہ پانی ٹھہرا ہوا ہے‘چل نہیں رہا۔یہی آب رواں جب سامنے کھڑی چٹانوں اور رکاوٹوں سے ٹکراتا ہے تو پھر شور اٹھتا ہے۔بڑے بڑے پتھر تیز بہاﺅ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ رکاوٹیں سرنگوں ہوتی جاتی ہیں اور پانی تباہی مچاتا بڑھتا چلا جاتا ہے۔ Continue reading »

written by host

Apr 18

Click here to View Printed Statements

ماضی میں جھانکنا انسان کی فطرت ہے۔نہ چاہتے ہوئے بھی انسانی سوچ ماضی کے جھروکے سے جھانکنے لگتی ہے۔ دس برس ہونے کو آئے ہیں امریکہ نے نائن الیون کے حادثے کا بدلہ لینے کے لئے روسیوں کے ہاتھوں پہلے سے ہی تباہ حال افغانستان پر ڈیزی کٹر بموںکی بوچھاڑ کر دی تھی۔آج امریکی سفیر پورے یقین سے اعلان کر رہا ہے کہ امریکہ افغانستان سے واپس جانے کے لئے نہیں آیا۔ پھر کس لئے آیا؟ یہ وہ سوال ہے جس کے ہزاروں جواب ہیں۔”نائن الیون“ بپا کرنے والے کون تھے‘یہ سارا نزلہ طالبان کی ”اسلامی حکومت “پر کیوں گرا؟۔ایسے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں۔ جب تک مورخ تاریخ قلم بند کرتے رہیں گے‘افغانستان پر امریکی قبضہ کی وجوہات پر بحث ہوتی رہے گی۔ Continue reading »

written by host

Apr 02

Click here to View Printed Statements

وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان نے کرکٹ ڈپلومیسی کو کامیاب قرار دیتے ہوئے یہ یقین بھی ظاہر کردیا کہ پاکستان اور بھارت اپنے مسائل خود حل کرسکتے ہیں کسی تیسرے فریق کی ضرورت نہیں۔آپ قارئین کو یاد ہوگاکہ سابق صدر جنرل پرویز کی حکومت نے آگرہ میں بے آبرو ہونے سے پہلے تواتر اور تسلسل کے ساتھ یہی خوشخبری سنائی تھی کہ اب پاکستان اور بھارت خود اس قابل ہوگئے ہیںکہ کشمیرسمیت تمام معاملات خود ہی حل کرلیں گے امریکہ یا کسی اور ملک کی طرف سے ثالثی کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ Continue reading »

written by host

Mar 14

Click here to View Printed Statements

پاکستان کا مسئلہ نمبر ایک کیا ہے؟ ہر صاحب شعور پاکستانی اپنی زندگی میںکئی بار سوال اٹھاتا ہے لیکن کوئی شافی جواب نہ پا کر قلبی بے اطمینانی اور بے چینی کے دائمی مرض میںمبتلا ہوجاتا ہے۔ افراد ہی نہیں بڑے بڑے ادارے اسی سوال کو بنیاد بنا کر بحث و تمحیص کی لامتناہی نشستوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ لیکن آج تک یا تو اس سوال کا کوئی قابل عمل حل پیش ہی نہیں کیاگیا یا پھر اگر کہیں کوئی جواب موجود ہے تو اسے عوام الناس کی طرف سے اجتماعی پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔ Continue reading »

written by host

Feb 21

Click here to View Printed Statements

سیاست کے کوچے میں سب سے زیادہ بے آبرو ہونے والی جنس خود سیاست ہی ہے۔ علم شہریت میں سیاستدان کی تعریف چاہے جو بھی ہو لیکن پاکستان کے اندر اس قبیلے کے لوگوں کا نام آتے ہی عہد شکن‘دروغ گو‘مکار‘ لٹیرا وغیرہ کے معنی دماغ میں گھومنے لگتے ہیں۔ ہر وہ لیبل جو تخریبی اور منفی رجحانات پر چسپاں کیا جاسکتا ہے وہ سیاست کاروں کے لئے مختص ہو کر رہ گیا ہے۔ جب مہذب انداز میں کسی کو گالی دینا ہو تو” آپ تو ٹھہرے سیاستدان“ ہی کہہ دینا کافی سمجھا جاتا ہے۔ چونکہ سیاست جمہوریت کے ذریعے نشوونما پاتی ہے اس لئے عوام عمومی طور پر مروجہ جمہوری نظام سے بھی بیزار دکھائی دیتے ہیں۔”سیاست میں کوئی مستقل دشمن یا دوست نہیں ہوتا“۔”سیاست میں ہر وقت دروازے کھلے رکھے جاتے ہیں“۔ یہ اورایسی ہی توجیحات ہیں جن کو عوام سمجھتے تو ہیں لیکن انہیں اصولوں اور ضابطوں سے ماوراءجان کر دل سے قبول کرنے پر تیار نہیں ہوئے۔ Continue reading »

written by host

Feb 04

Click here to View Printed Statements

تعلیمی بجٹ میںاضافہ تو اب محض ایک سہانا سپناہی رہ گیا ہے جو ہرسیاسی پارٹی کے منشور میں خوبصورت خطاطی کا لباس پہنے چھوئی موئی بنا بیٹھا ہے۔برسراقتدار آنے کے بعد جب وزیر تعلیم بجٹ کی اس مد پر لب کشائی کرنا چاہتا ہے تو اس کے ہونٹ خشک ہوجاتے اور ماتھے پر شرمندگی کے پسینے پھوٹنے لگتے ہیں۔ٹاٹ سکولوں پر بیٹھنے والے جب بڑے عہدوں پر پہنچ کر اپنے سکول جاتے بچوں کی ٹائیاں درست کر رہے ہوتے ہیں تو بھول جاتے ہیں

Continue reading »

written by host

Feb 01

Click here to View Printed Statements

چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے نیشنل انشورنس کارپوریشن لمیٹڈ میں اربوں روپے کی کرپشن کے مقدمے کی سماعت کے دوران تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ کرپشن کو برداشت نہیں کریں گے چاہے اس میں کوئی بھی ملوث ہو۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بہت ہوچکا‘ تمام متعلقہ لوگوںکےلئے کھلا پیغام ہے کہ کرپشن کے مقدمات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ہم روزانہ کرپشن کے مقدمات سنتے سنتے تھک گئے ہیں۔ چوروں کو بچانے کیلئے چور اکٹھے ہوگئے ہیں ‘ہم سب کو بلائیں گے۔ Continue reading »

written by host

Nov 01

Click here to View Printed Statement

اسّی اور نوے کی دہائی میں اردو اخبارات نے مالی بدعنوانی کی جگہ سمندر پار کی طرف سے دی گئی اصطلاع ”کرپشن“ کو شہ سرخیوں میں اس وقت جگہ دینا شروع کی جب میاںنوازشریف اور بے نظیر بھٹو کی حکومتوںکو کرپشن کے الزامات لگا کر ختم کیاگیا۔ تب سے ذرائع ابلاغ اور ان سے متاثر ہونے والے ناظرین اور قارئین لفظ ”کرپشن“ سے متواتر متعارف ہو رہے ہیں بلکہ اب تو شائد ہم روزمرہ کے معمولات میںبھی کئی بار”کرپشن“ اور ”کرپٹ“ کے الفاظ استعمال کرتے رہتے ہیں۔

Continue reading »

written by host

Oct 02

Click here to View Printed Statement

ماضی میں غریب غرباءاپنی غربت اور تنگدستی کو اپنا مقدر سمجھ کر دھیرے دھیرے موت کی طرف بڑھتے رہتے تھے۔بغاوت کا آپشن عام نہیں ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ساٹھ اور ستر کی دیہائیوںمیں اشتراکی نظریات اپنے تمام تر پرکشش نعروں کے باوجود پاکستانی معاشرے میں جڑ نہ پکڑ سکے اور روس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ نے پاکستانی عوام کو روس سے بڑی حد تک لاتعلق ہی رکھا۔

Continue reading »

written by host

Aug 25

Click here to View Printed Statement
Click here to View Printed Statement

روزہ کھلنے میں ابھی چالیس منٹ باقی ہیں لیکن مسجد نبوی کے ہر حصے میں نمازی افطار کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ہر شخص اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ افطاری لا رہا ہے جسے دروازوں پر کھڑے ہوئے دربان چیک کرتے ہیں۔کھجوریں‘قہوہ‘جوس کے ڈبے اندر لانے کی اجازت ہے۔سموسوں اور پکوڑوں کی ممانعت ہے۔ یہ پابندی اس لئے عائد ہے کہ مسجد میں گندگی نہ پھیلے۔ تھرموس میں اگر قہوہ ہے تو آپ اسے لے جاسکتے ہیں لیکن دودھ والی چائے پر دربان اعتراض کرتے ہیں۔

Continue reading »

written by host

Jun 22

Click here to View Printed Statement

یہ ملاقاتیں بھی عجیب ہیں۔جب میل ملاپ کے سارے راستے بند ہوں اور فریقین کوماضی مرحوم کی محبتیں ڈسنے لگیں تو پھر کونسا طریقہ نکالاجائے کہ شریفانہ طرز سیاست پر حرف بھی نہ آئے اور ملاقات کا سبب بھی پیدا ہوجائے۔ اس کی زندہ اور تازہ ترین مثال کالا باغ ڈیم کے اشو پر سینٹ کے اندر مسلم لیگ (ن) اور (ق) کے ارکان کا یک زبان ہونا ہے ایک ایسا اشو جسے خود مسلم لیگ (ن) اور(ق) نے”وسیع تر قومی مفاد“ میںدفنا دیا تھا‘قومی وحدت کو ڈیم پر قربان نہ کرنے کا اعلان بھی کیا تھا‘متبادل

Continue reading »

written by host