Aug
21
|
Click here to View Printed Statement
شخصیات بہت اہم ہوتی ہیں۔افراد ہی قوموں کے مقدر سنوارتے اور بگاڑتے ہیں۔ فرد کو ملت کے مقدر کا ستارہ کہا گیا ہے۔رجال عظیم کسی ملت کے دامن میں سجے ہوئے وہ ہیرے اور جواہرات ہوتے ہیں جن کی تعداد سے قوموں کی توانائی کا اندازہ ہوتا ہے۔قحط الرجال کا مطلب ہی یہی ہے کہ قوم میں رہبری کے منصب پر فائز ہستیاں دُنیا میں نہ رہیں۔ مصلحین سے تہی دامن اقوام بے راہ روی اور گمراہی کا شکار ہوجاتی ہیں۔
قیام پاکستان سے قبل عظیم شخصیات کی ایک تسبیح موجود تھی۔دانے بکھرتے گئے اور قائداعظم کی جیب میں کھوٹے سکّے بچ گئے تھے۔ جو اصلی لوگ تھے وہ اُفتاد زمانہ کا شکار ہوگئے۔ گزشتہ ستر سالہ تاریخ میں ہمیں افراد کار دکھائی تو دیتے ہیں لیکن ان کی تعداد محض آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ جنرل حمید گل مرحوم و مغفور ان محدوے چند لوگوں میں شامل ہیں جن کے وجود سے قوم کے اندر اُمید اور یقین کی شمعیں ٹمٹاتی رہی ہیں۔ جنرل صاحب اُن پاکستانیوں کے لئے ایک نفسیاتی سہارا تھے جو خودی اور خوداری کے اوصاف سے لیس ہو کر ملّی تعمیروترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ جنرل صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کا مطالعہ زیادہ مفید ہے کیونکہ وہ اپنی سوچ اور فکر کے اعتبار سے مکمل طور پر آزاد تھے۔ عہدے کے بندھن یا کسی سرکاری حیثیت کی نزاکتوں سے مبّرا جنرل حمید گل کا کردار روشن بھی ہے اور قابل تقلید بھی۔
ہمارا قومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ جب کوئی عظیم شخصیت ہمارے درمیان رہتی ہے تو ہم اس کے نظریات کو اہمیت نہیں دیتے۔ جنرل صاحب ہر کسی کو پُکارتے رہے کہ آئیں اور پاکستان کو اس کی اصل اساس پر قائم رکھتے ہوئے آگے لے کر چلیں۔ انہوں نے ہر فورم پر پاکستان کو عظیم اسلامی ریاست بنانے کا تصور پیش کیا۔ سیکولر طبقے کی سازشوں کو بے نقاب کیا اور اسلام کی حقانیت اور اسلامی دنیا کی عظمت کے گُن گائے۔ کچھ نے ان کی آواز پر لبیک کہا ‘ بہت سوں نے ان کی بات کو سچ مانا لیکن وہ اقتدار کے سورج کی پوجاپاٹ میں ہی مصروف رہے۔ بعض سماجی اور سیاسی حلقے چند قدم ان کے ساتھ ضرور چلے لیکن راستے میں ہی تھک گئے۔ جنرل صاحب کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ انہیں بڑے سے بڑے جلسوں میں سن لیں یا چھوٹی سی چھوٹی محفلوں میں دیکھ لیں’ ایک ہی نظریہ اور ایک ہی سوچ کے داعی تھے۔ وقت’ حکومت’ یا ماحول نے جنرل صاحب کو کبھی بھی متاثر نہیں کیا۔ وہ بی بی سی کو انٹرویو دے رہے ہوں یا کسی مقامی اخبار کے ساتھ بات جیت کر رہے ہوں اپنے بنیادی فلسفے سے سرمُو انحراف نہ پائیں گے۔
نسیم انور بیگ جنت نصیب کی میز پر جنرل صاحب سے اکثر ملاقات رہتی تھی۔ تھنکرز فورم میں بھی ان کے افکار سننے کو ملتے تھے۔میں نے جنرل صاحب کی زندگی میں ان کے حوالے سے کالم لکھے”’جنرل حمید گل امریکہ سے ڈرتے کیوں نہیں” اس تحریر پر انکل نسیم انور بیگ کی طرف سے بہت پذیرائی ملیِ۔ انکل نے اس کالم کی فوٹوکاپیاں تقسیم کرائیں۔ جنرل صاحب نے شکریے کا فون کیا۔ یونائیٹڈ انٹرنیشنل گروپ کے آفیسرز نے جنرل صاحب کے اعزاز میں عشایئے کا اہتمام کیا تھا۔ یہ عشائیہ ایک فکری نشست میں تبدیل ہوگیا۔ آفیسرز نے دنیائے اسلام سے لے کر پاکستان کے اس وقت کے حکمران پرویز مشرف تک ہر طرح کے سوالات کئے۔ جنرل صاحب نے کمال تحمل سے جوابات دیئے گئے۔انہوں نے عالمی معیشت پر بھی سیر حاصل گفتگو کی۔ وہ علامہ اقبال کے اشعار اور قرآنی آیات سے ایسے حوالے دیتے تھے کہ سامع انکار کر ہی نہیں سکتا تھا۔ مجھے تو وہ اقبال کے شاہین دکھائی دیئے۔حاضر وموجود سے بیزار کردینے والے امام برحق لگے۔انہوں نے اس محفل میں بھی ”نرم انقلاب” کے خدوخال بیان کئے تھےِ۔انہیں پاکستان کے عروج کے بارے میں لازوال قسم کا اعتماد تھا۔ وہ پاکستانی طالبان کو بھارت’اسرائیل اور امریکہ کی واردات سمجھتے تھے۔ وہ افغان قوم کی بہادری کے قائل تھے اور امریکیوں کی شکست کو یقینی سمجھتے تھے۔
آج جنرل صاحب ہمارے درمیان نہیں ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا مشن وفات پا گیا ہے۔ انکل نسیم انور بیگ نے جب نظریہ پاکستان سنٹر کی بنیاد رکھی اور بعد ازاں مجھے اس کی صدارت کی ذمہ داری سونپی تو سرپرست اعلیٰ کے طور پرجنرل حمید گل کا نام لکھا۔یہ سنٹر آج بھی جنرل صاحب اور انکل بیگ کے نظریے۔نظریہ پاکستان یعنی نظریہ اسلام کی شمع روشن کئے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔ جنرل صاحب کی روح سے میرا اور میرے ساتھیوں کا یہ عہد ہے کہ ہم حمید گُل مرحوم و مغفور کے مشن کو زندہ رکھیں گے اورقحط الرجال کے اس موسم میں ان کی یادوں اور باتوں سے قومی افکار کو تازہ کرتے رہیں گے۔ اور ثابت کریں گے کہ جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی!
سانس تھم جانے سے اعلان نہیں مر جاتے
ہونٹ جم جانے سے فرمان نہیں مرجاتے