Aug
04
|
Click here to View Printed Statement
عورت نصف انسانیت ہے۔دوسرے لفظوں میں انسانیت کی نصف ذمہ داریاں عورت کے اور نصف ذمہ داریاں مرد کے سر ہیں۔ ہر ایک کی ذمے داریاں یا فرائض جدا جدا اپنی اپنی جگہ نہایت اہم اور ضروری ہیں قدرت نے اپنی کمال حکمت سے مرد اور عورت کو ان کے مخصوص جسم ذہن اور نفسیات کے طبی فرق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے الگ الگ نوعیت کی ذمہ داریاں سونپی ہیں۔عورت کمزور اور نازک ہے لہٰذا عورت کے ذمے وہی فرائض سونپے گئے ہیں جن کی انجام دہی میں غیر معمولی جسمانی و ذہنی طاقت اور قوت درکار نہ ہو۔مرد عورت کی نسبت زیادہ طاقتور اور جسم ہے لہٰذا اس کے ذمہ اور سونپے گئے جو غیر معمولی قوت اور طاقت کا مطالبہ کرتے ہیں۔
فکر معاش انسانی زندگی کا سنگین ترین مسئلہ ہے۔انسان کی تمدنی کامیابی اور قدرومنزلت بڑی حد تک اس کی اقتصادی مضبوطی سے وابستہ ہے۔ یہ فکر انسان کو شدید قسم کی جسمانی و ذہنی قباحتوں اور مصیبتوں سے گذرنے پر مجبور کرتا ہے۔موسموں کی شدت سے دوچار کرتا ہے۔طوفانوں اور سخت ہوائوں سے لڑانا ہے۔آسمانوں اور زمین کی خاک چھاننے پر مجبور کرتا ہے۔سمندروں میں غوطے لگانے اور پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے کا حکم لگاتا ہے۔ان کو اس فکر کی بدولت گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا پڑتا ہے۔طرح طرح کے خطرے مول لینا پڑتے ہیں اور دل دہلا دینے والے نقصانات جھیلنے پڑتے ہیں۔بدترین قسم کی ماتحتی اور تابعداری سے واسطہ پڑتا ہے غرض فکر معاش انسان کے لئے اچھا خاصہ دردسر ہے۔ اب اگر عورت کی فطری ذمہ داریاں یا اس کے طبعی فرائض کا ایک ہلکا سا بھی جائزہ لیا جائے بالخصوص اس کے مخصوص اور جداگانہ جسم ذہن اور نفسیات کا لحاظ رکھتے ہوئے تو یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ فکر معاش عورت کی ذمہ داری ہوہی نہیں سکتی اپنے قدرتی دائرہ عمل سے وابستہ ذمہ داریوں سے کماحقہ عہدہ برآہونے کے بعد کے پاس اس قدرورفت اور ہمت باقی ہی نہیں بچتی کہ وہ کوئی دوسرا کام کسی نمایاں کامیابی کیساتھ سرانجام دے سکے۔ امور خانہ داری اور اولاد کی تربیت اور گھر کی نگران کی حیثیت سے عورت پر جو ذمہ داریاں ہیں وہ اس باست کی متقاضی ہی کہ عورت اپنا اکثر وقت گھر پر گزارے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے عورت کووسیع معاشی و دیگر تمدنی حقوق بخشے ہیں وہ عورت کو اس کی ہمت یا بساط سے بڑھ کر کام کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح الفاظ میں یہ بات فرما دی ہے کہ مرد عورتوں کے ”قوام” ہیں۔(اقوام بمعنی نگران و کفیل)
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت
بخشی ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا کمایا ہوا مال عورتوں پر خرچ کرتے ہیں(نہ کہ عورتیں مردوں پر) عورتوں کو معاشی استحکام بخشنے اور انہیں فکر معاش کے روح فرسا دھندے سے بچانے کی خاطر اسلام نے وراثت کے قانون کے تحت ان کا (عورتوں کا) باپ’ شوہر اوالد اور دوسرے قریبی رشتہ داروں سے ترکہ میں حصہ رکھا ہے عورتوں کو اسلام نے نان و نفقہ(کھلانے پلانے’لباس اور مکان کی ذمہ داری)اور مہر کے خصوصی حقوق بخشے ہیں۔عورت کا نفقہ اس کے شوہر پر ہی واجب نہیں ہے بلکہ شوہر نہ ہونے کی صورت میں باپ’ بھائی بیٹے اور دوسرے سر پرستوں پر بھی واجب ہے۔وہ مال جو عورت کو وراثت یا مہر کی صورت میں ملتا ہے اس پر عورت کو پورا قبضہ اور اختیار دیا گیا ہے اور اگر وہ تجارت یا کسی دوسرے ذریعہ سے مال حاصل کرے تو اس کی بھی وہی تنہا مالک ہوتی ہے پھر اسلام نے عورت کو بھی حق دیا ہے کہ وہ خود کتنی ہی مالدار کیوں نہ ہو اس کا نفقہ شوہر ہی کے ذمے رہتا ہے اور اسے قانوناً حاصل کرسکتی ہے۔مرد اگر نفقہ ادا نہ کرے یا اس کا انتظام کئے بغیر کہیں غائب ہوجائے تو عورت قانونی طور پر اپنا نفقہ جائیداد سے وصول کرسکتی ہے۔ مرد کے نام پر قرض لے سکتی ہے اور اس طرح کی ادائیگی شوہر کے ذمہ ہوگی۔ پھر عورت کے لئے مہر کا حق کسی حال میں بھی ساکت نہیں ہوتا۔ جب تک کہ وہ خود ہی اس سے دستبردار نہ ہوجائے۔مغرب نے عورت کو کسب معیشت میں اصولی حیثیت سے شریک کرکے فاش غلطی کی ہے۔ آج ان کی خاندانی زندگی کا شیرازہ بکھر چکا ہے گھروں سے چین اور سکون رخصت ہوچکا ہے۔