Mar 26

Click here to View Printed Statement

ہمیںپی پی حکومت کا مشکور ہونا چاہیے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح کی سالگرہ سرکاری طور پر منانے کا اہتمام ہوا ہے۔
گزشتہ 65 برسوں میں ہم نے اتنے قائد بنا لئے ہیں کہ اپنے اصل قائد کو بھول ہی گئے ہیں۔ بلکہ آمریتوں کے ادوار میں جان بوجھ کر قائداعظم کی سالگرہ اور برسیوں پر خاموشی اختیار کی گئی۔ پرویز مشرف کے دور میں آمریت کے کاسہّ لیس اورشاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروںنے پاکستان کے کرنسی نوٹوں سے بانی پاکستان کی تصویر ہٹا کر جنرل پرویز کی تصویر لگانے کا پورا منصوبہ بنالیا تھا۔ نمونے کے طور پر ایسے نوٹ تیار بھی ہوگئے تھے۔آج بھی قائداعظم کی ذات اور ان کے افکار کو متنازعہ بنانے کا ٹھیکہ لنڈا بازار کے دانشوروں کو دے دیا گیا ہے۔ ایسی ایسی بولیاں سنائی گئیں کہ کان پھٹنے کو آگئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانان ہند نے یہ ملک مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ چند امریکی غلاموں کی ناجائز خواہشوں کی بارآوری کیلئے بنایا تھا۔
”پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ اللہ” والے نعرے کا تمسخر اڑایا جارہا ہے۔ اسلام کا حوالہ مٹانے کی ہر کوشش کی جارہی ہے۔ ایک گروپ نے امریکیوں کے اشارے پر ”اسلامی جمہوریہ پاکستان” میں سے اسلام کا لفظ حذف کرنے کی رٹ لگانا شروع کررکھی ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ہمارے دوست کالم نگار بیگ راج نے کہیں لکھ دیا ہے ”اگر آج قائداعظم زندہ ہوتے…” تو بگرام ایئربیس پر امریکیوں کی قید میں ہوتے”

Continue reading »

written by host

Mar 12

Click here to View Printed Statement

”شوگر سے شوگر نہیں ہوتی۔انسانی جسم میں ایک خاص حد تک ہی شوگر جذب ہوسکتی ہے۔ اس قدرتی حد سے بڑھیں گے تو انسانی نظام ہضم خود بخودا کتاہٹ محسوس کرنے لگے گا۔ یہ محض ڈاکٹروں کا پراپیگنڈہ ہے کہ چینی کھانے سے شوگر کی بیماری لاحق ہوجاتی ہے۔ اس بیماری کے اسباب کچھ اور ہیں لیکن عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے یہ سستاسا نسخہ گھڑلیا گیا ہے”۔
ملاقات شروع ہی ہوئی تھی کہ سکندر خان اپنے دبنگ لہجے میں شوگر انڈسٹری کو نقصان پہنچانے والے سرکاری اور غیر سرکاری اقدامات کا احاطہ کرنے لگے۔آل پاکستان شوگر ایسوسی ایشن کے سابق صدر اورخیبرپختونخواہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق چیئرمین سکندر خان معروف صنعت کار گھرانے کے چشم وچراغ ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے صنعت کاروں کے اندر حکمرانوں کے سامنے بات کرنے کا حوصلہ پیدا کیا ہے اور وہ قومی سطح کے متعدد فورموں پر صنعت کاروں کے مسائل اور پریشانیوں سے پالیسی ساز اداروں کے سربراہوں کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔

Continue reading »

written by host

Sep 15

Click here to View Printed Statement

متحدہ مجلس عمل کی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ جماعت اسلامی ہی ہے۔ اب کی بار جماعت کے رہنماء صوبائی کی بجائے قومی سیاست میں حصہ ڈالنا چاہتے ہیں۔جماعت اسلامی نے ملک کی سیاسی اور جہادی تاریخ میں ہمیشہ عمل انگیز کا کام کیا ہے۔جماعت اسلامی کے تھنک ٹینک اب مصر’تیونس اور ترکی کے تجربات کو پاکستانی سیاست میں آزمانے کے لئے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔سولو فلائٹ کی بجائے ہمخیال سیاسی جماعتوں کا اتحاد ان کا سیاسی فلسفہ دکھائی دیتا ہے ۔ اس لئے مولانا فضل الرحمن اگر جماعت اسلامی کے تمام مطالبات مان بھی لیں تو بھی اب کی  بار متحدہ مجلس عمل بحال نہ ہوپائے گی۔ Continue reading »

written by host

Jun 16

Click here to View Printed Statement

توانائی بحران کے حوالے سے اب کوئی دوسری رائے نہیں رہی۔ مشرف دور  کے آخری برسوں تک یہ سوچ جاری رہی کہ ملک میں بجلی اورگیس کی وافر مقدار موجود ہے اگر لائن لاسز اور چوری پر قابو پا لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم توانائی کی ضرورتوں کو پہلے سے موجود ذرائع کے ذریعے پورا کرسکتے ہیں۔ لیکن آج چار برس مزید گذرنے کے بعد یہ خوش فہمی بھی دور ہوگئی ہے۔بجلی چوروں کو لگام دینے کی بجائے آج کل ان کے ناز اٹھائے جارہے ہیں۔کراچی میں کنڈا سسٹم کوئی ختم نہیں کراسکتا۔ جنوبی پنجاب  کے بعض حصوں میں بھی بجلی چوری کا رجحان تیزی سے پھیل رہا ہے۔ سندھ کے اکثر دیہی علاقوں میں سال میں ایک بار بجلی کا بل آتا ہے جو ہزار دو ہزار سے زیادہ نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے سرکاری ادارے’وزیراعظم ہائوس ‘ ایوان صدر سب بجلی کے بلوں کے نادہندہ ہیں۔بجلی کے صارفین کا چالیس فیصد حصہ باقی ماندہ ساٹھ فیصد کا بھی بل ادا کرتا ہے۔

Continue reading »

written by host