Jan
12
|
اسے اطلاع ملی تھی کہ قائداعظم لاہور تشریف لارہے ہیں۔مسلمانوں کے قائد کو ایک نظر دیکھنے کی خواہش نے اس کے ننھے دل میں بجلیاں بھر دیں تھیں۔ اس نے سکول سے چھٹی کی‘بستہ گھر میں پھینکا اور والدین کو بتائے بغیر لاہور کی طرف پیدل چل نکلا۔ اس کا خیال تھا بلکہ اسے یقین تھا کہ وہ پیدل چل کر منزل تک پہنچ جائے گا۔
ان دنوں لاہور تحریک پاکستان کا گڑھ تھا۔ اور اس شہر سیاست کا تذکرہ اس کے گھر میں اس تواتر کے ساتھ ہوا کرتا تھا کہ اس کے کمسن شعور میں فاصلے بے معنی ہوگئے تھے۔جالندھر شہر سے بیچوں بیچ گزرتا وہ ایک سمت کو ہولیا۔ لاہور کا سنا سنایا جغرافیہ ہی اس کا رہبر تھا۔جب شہر سے نکلنے والی شاہراہ پر کافی آگے بڑھ گیا تو سامنے سے سائیکل پر سوار چچا آرہے تھے۔انہوں نے رک کر پوچھا‘
”رفیق بیٹے کدھر جارہے ہو؟“
”لاہور“ !…. پیشانی سے پسینہ صاف کرتے ہوئے پرعزم بچے نے جواب دیا اور بتایا کہ وہ قائداعظم کو دیکھنے اور ان سے ملنے لاہور جارہا ہے۔ چچا نے پیار سے سمجھایا کہ بیٹا جالندھر سے لاہور پیدل پہنچنا بہت ہی مشکل کام ہے اور شائدتمہیں فاصلے کا علم نہیں۔پھر چچا سمجھا بجھا کر واپس گھر لے آئے۔
رفیق کو بعد میں اپنے ہی گھرمیں قائداعظم کو دیکھنے کا کئی بار موقعہ ملا۔قیام پاکستان کے اگلے روز عظیم مسلم لیگی رہنما ڈاکٹر حمید اللہ بیگ کے خاندان نے جالندھر سے ہجرت کی اور جہلم آکر آباد ہوگیا۔
پاکستان کو ڈاکٹروں کی اشد ضرورت تھی اور رفیق احمد نے اپنے والد کی ہدایت کے مطابق ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کیا۔ کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج لاہور سے ایم۔ بی۔بی۔ ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد رفیق اب ڈاکٹر محمد رفیق مرزا کے طور پر جانے لگے تھے۔انہوںنے اعلیٰ تعلیم کی غرض سے انگلینڈ کا رخ کیا۔ وہاں پر یکٹس بھی شروع کردی اور پھر وہیں ملازمت بھی اختیار کر لی۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ اب تم آزاد وطن کے ڈاکٹر ہو۔انگریزوں نے بڑے عرصے تک تمہیں غلام بنائے رکھا۔ مزہ جب ہے کہ انگریزوں کی لڑکی سے شادی کرکے اسے لاہور لے جاﺅ۔ خوبصورت اورتوانا جسم کے اس مغل زادے کے لئے انگریز لڑکیوں کی کمی نہ تھی۔ڈاکٹر رفیق مرزا کی شرط تھی کہ جب کوئی انگریز لڑکی اسلام قبول کرے گی تب اس سے شادی کریں گے۔شادی ہوگئی لیکن دیار غرب کی مٹی پاﺅں کی زنجیر بن گئی۔ بوقت نکاح یہی طے ہوا تھا کہ منکوحہ پاکستان چلی جائے گی لیکن بدقسمتی سے انگریز بیوی پاکستان آکر بھی پاکستانی نہ بن سکی۔ ایک طرف پاکستان تھا دوسری طرف بیوی تھی‘بیٹے اور بیٹیاں تھیں۔ایک کا انتخاب کرنا تھا معروف کالم نگار بیگ راج کہتے ہیں ”ڈاکٹر رفیق مرزا کو اپنی مٹی سے عشق تھا۔ مادر وطن کی محبت میں انہوںنے دولت‘اولاد اور سٹیٹس کے ہر بندھن کو توڑ ڈالا۔ جو بچہ جالندھر سے پیدل چل کر لاہور آنا چاہتا تھا وہ بڑا ہو کر انگلینڈ سے بھاگا اور اسلام آباد آکر سجدہ ریز ہوگیا“
ڈاکٹر صاحب نے پاکستان آکر ملت کی مسیحائی کا عمل شروع کیا۔ انہیں لوگوں کی فکر کو بیدار کرنے کا جنون تھا۔ ”بیداری فکر فورم“ اسی بے قراری کا اظہار ہے۔
ڈاکٹر صاحب سے میری ملاقات اسی فورم میں ہوئی تھی‘ ان کے افکار کی بنیاد قرآن فہمی پر مبنی تھی۔ چونکہ میرے شعور کا محور بھی ہدایت الٰہی کا یہی سرچشمہ ہے اسی لئے ڈاکٹر صاحب سے قربت بڑھتی گئی۔ فورم دراصل اہل فکر و نظر کا ایک ایسا گلستان ثابت ہوا جس میں کھلنے والے ہر پھول کی اپنی مہک تھی۔ فکر اور تدبر کی خوشبو پھیلتی رہی اور میں ذہن و قلب سے ڈاکٹر رفیق مرزا صاحب کی راست روی کا اسیر ہوتا چلا گیا۔
ڈاکٹر صاحب اب ہم میں نہیں رہے۔ ہمارے پاس ان کے افکار ہیں۔ ان کا چھوڑا ہوا سب سے بڑا اثاثہ یہ فورم ہے۔ یہ میری خوبی نہیں ان کا بھروسہ تھا کہ انہوں نے مجھ جیسے طالب علم کو اپنے اس فورم کا ڈپٹی چیئرمین بنا دیا۔ آج جب ڈاکٹر صاحب انتہائی خاموشی کے ساتھ ہمیں الوداع کہہ کر حضور حق میں سرخرو ہونے کے لئے چلے گئے ہیں تو دل چاہتا ہے کہ ان کے فورم کو ان کی یاد میں یوں ہی آباد اور کارآمد بنائے رکھاجائے کہ افکار تازہ کی یہ محفلیں فکری کشمکش میں پھنسی اس قوم کےلئے تازہ سانس کی سی اہمیت رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے سچے پاکستانی اور پکے مسلمان ہونے کے تقاضے نبھانے میں کبھی غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پاکستان دھیرے دھیرے بانی پاکستان کے ایسے عاشقوں سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ خدا سے کوئی شکوہ تو نہیں کہ جس نے پیدا ہونا ہے اسے بہرحال یہاں سے کوچ بھی کرنا ہے۔ لیکن قائداعظمؒ کے ساتھیوں کو یوں جاتے دیکھ کر دل کو ایک دھچکا سا لگتا ہے۔زبان پر بے اختیار علامہ اقبالؒ کے اشعار آجاتے ہیں‘
تیری محفل بھی گئی‘ چاہنے والے بھی گئے
شب کی آہیں بھی گئیں‘ صبح کے نالے بھی گئے
آئے عشاق گئے وعدہ فردا لیکر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لیکر