Mar
04
|
Click here to View Printed Statement
نئی پارلیمان معرض وجود میں آیا چاہتی ہے۔حکومت سازی اب ہفتوں کی نہیں دنوں کی بات رہ گئی ہے۔ جناب آصف علی زرداری‘ جناب میاں محمد نوازشریف اور اسفندیار ولی کے سیاسی ملاپ سے ایک مضبوط پارلیمانی اتحاد معرض وجود میں آچُکا ہے۔ قوم نے اس اتحاد سے ابتدائی طور پر جو اُمیدیں وابستہ کر رکھی تھیں اب ان آرزوﺅں کی تعداد میں اضافہ ہوچُکا ہے۔ عوام کو یقین آچکا ہے کہ نیا سیٹ اپ بغیر کسی ٹکراﺅ کے معزول ججوں کو بحال کرا لے گا۔ اٹھاون ٹو بی کی آئینی ترمیم ختم ہوجائے گی اور اُکتائے ہوئے عوام کو کوئی نیا صدر بھی مل جائے گا۔ عوام یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ بغیر کسی مزید جگ ہنسائی کے ہمارے موجودہ صدر خود ہی رضاکارانہ طور پر واپسی کی پلاننگ کر رہے ہوں گے اور بعض سیاسی گروہ جو صدر پرویز کو اٹھاون ٹو بی جیسی غیر جمہوری ترمیم ختم نہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں وہ بھی ہوا کا بدلہ ہو رُخ محسوس کریں گے اور صدارتی کیمپ کے ساتھ مل کر نئے سیٹ اپ کے خلاف کوئی سازش کرنے کی بجائے اپنے وعدوں کے مطابق مثبت اور تعمیری حزب اختلاف کے کردار تک خود کو محدود کر لیں گے۔
اصل سوال یہ ہے کہ کیا مضبوط سیاسی اتحاد پاکستانی قوم کو اچھی حکمرانی کا خوبصورت تحفہ دے پائے گا یا نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ آٹھ برسوں میں فرد واحد کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ آئین قرار پاتے رہے۔ ٹرائپرنسی اور نیو ٹرالٹی کا شور بہت کیا گیا لیکن ہمارے ہر حکومتی اور قومی ادارے میں حکمران کے قریبی لوگوں کو اعلیٰ عہدوں سے نوازا گیا۔ مراعات پر مراعات دی گئیں اور گڈگورنس کا دھوکا دے کر تاریخ کی بدترین انتظامیہ کو عوام کے سروں پر مسلط کردیا گیا۔ حد یہ ہے کہ ضلعی حکومتوں کی غیر جانبدارانہ حیثیت بُری طرح مجروح ہوئی اور عملاً ہمارے ناظمین حکمران پارٹی کے ایجنٹ بن گئے۔ لہٰذا حکومت کے ترقیاتی فنڈز کی تقسیم بھی مخصوص شہروں‘ علاقوں اور طبقوں تک محدود رہی اور ضلعی حکومتوں کے قیام کے وقت اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی کا جو وعدہ کیا گیا تھا وہ کائی برآب ثابت ہوا۔ سٹیل ملز کی نجکاری کے سکینڈلز گندم فراڈ اور چینی چوری کی وارداتوں سے لے کر کرپشن کے معمولی معاملات تک کابینہ اور ان کے درجہ بدرجہ عزیز واقارب سب شامل رہے۔
عوام کا ”گڈگورنس“ ”صوبائی ہم آہنگی“ ”معاشی خوشحالی“ اور ”حقیقی جمہوریت“ جیسے اصطلاحات پر اعتماد ہی اُٹھ چکا ہے۔
یہ سچ ہے کہ آزاد عدلیہ ہی اچھی حکمرانی کی بنیاد ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ خودمختار پارلیمنٹ ہی قومی مسائل کو بہتر طریقے سے حل کرسکتی ہے لیکن پاکستانی قوم اس مریض کی مانند ہے جسے ایک طرف دہشتگردی جسے موذی امراض لاحق ہیں اور دوسری طرف مہنگائی اور بیروزگاری جیسے درد سر نے ادھموا کر رکھا ہے۔ عوام فوری طور پر درد سر سے نجات چاہتی ہے۔ مکمل علاج کے لئے لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم پلاننگ کی ضرورت ہوگی۔ ایسا نہ ہو کہ پارلیمان کی خودمختاری کی جنگ لڑتے لڑتے مہنگائی کے عفریت بستیوں کی بستیاں نگل لے۔بحران بے شمار ہیں اور قوم نے اپنی تمام اُمیدیں نئی اور مضبوط پارلیمنٹ سے وابستہ کر لی ہیں۔ جس طرح 18فروری کے انتخابی نتائج کی صورت میں اس ملک کے حق میں ایک تائیدغیبی آئی ہے‘ اسی طرح گڈ گورنس کا معجزہ بھی ہوسکتا ہے ۔ اگر نیتیں صاف رہیں اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا ماضی والا عمل نہ دہرایا گیا تو پاکستان کے اندر اتنی حرارت ہے کہ ایک سال کے اندر اندر اصلاح احوال کی منزل حاصل کی جاسکتی ہے۔
نئی کابینہ کے لئے ایک تجویز ہے جب وہ اپنے اپنے قلمدان سنبھال لیں تو قوم کے سامنے اپنے اثاثوں کا اعلان کر دیں اور عہد کریں کہ وہ اپنے اقتدار کے عرصہ میں کوئی تجارت نہیں کریں گے کوئی فیکٹری نہیں لگائیں گے اور اقتدار چھوڑتے وقت ان کے اثاثوں میں ہرگز کوئی اضافہ نہ ہوگا۔ اس طرح اچھی شروعات ہوسکتی ہےں اور گزشتہ دور میں حرص و ہوس کے پھیلائے ہوئے جال کو توڑا جاسکتا ہے۔
عددی اکثریت ایک بہت بڑی طاقت ہے ‘ لیکن اچھی حکمرانی اس کا اصل امتحان ہوگا!۔
اور آخر پر میاں محمد نواز شریف اور جناب آصف علی زرداری اور جناب اسفندیار ولی کو سازشی ٹولے کی متوقع کارروائیوں سے قرآن کے الفاظ میں آگاہ کر رہا ہوں۔ارشاد ربانی ہے ”مسلمانو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو۔ کہیںایسا نہ ہو کہ تم نادانی میں کسی فریق پر پِل پڑو اور پھر اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے“۔