Aug
21
|
Click here to View Printed Statement
یہ صحیح ہے کہ قوموں کی زندگی میں ساٹھ ستر برس کا عرصہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا لیکن یہ بات ملکوں کی تاریخ کے حوالے سے سچ معلوم نہیںہوتی۔ قوموں کا سفر ہرحال میں جاری رہتا ہے۔ ادھر ڈوبے ادھر نکلے کا عمل ہوتا رہتا ہے۔ لیکن ریاست ایسے ڈوبنے یا نکلنے کی متحمل نہیںہوسکتی۔ ایک بارکوئی ملک اگر دنیا کے نقشے پر ابھر آئے تو پھر اس کے مٹنے کا منظر بڑا ہی بھیانک ہوتا ہے۔
ڈیڑھ ارب مسلمان مختلف اسلامی اور غیر اسلامی ملکوں میں موجود ہیں۔ بحیثیت قوم ان کی زندگی میں اتار چڑھاﺅ آتے رہتے ہیں ان کی تعداد بھی بڑھتی رہتی ہے۔ ممکن ہے کہ رفتار زمانہ کے ساتھ ساتھ مسلمان انفرادی طور پر بھی ترقی کرتے رہیں۔ ارتقاءکا عمل جاری رہتا ہے اور انقلابات زمانہ اس عمل کی رفتار کو کم یا زیادہ تو کرسکتے ہیں روک نہیں سکتے۔ اصل مسئلہ ملکوں کی بقاءاور ترقی کا مسئلہ ہے پاکستان اپنی پیدائش کے پچیس برس بھی پورے نہ کرپایا تھا کہ دولخت ہوگیا۔ اب سابقہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے نام سے ایک نیا ملک بن چکا ہے۔ وہاں کے مسلمان ہوسکتا ہے پہلے سے بہت خوشحال ہوں لیکن پاکستان اب دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک نہیں رہا۔ اس لئے پاکستان کی زندگی میں پچیس سالوں کی بڑی اہمیت ہے۔ جو ملک ساٹھ برس گزارنے کے بعد بھی خانہ جنگیوں میں گھرا ہوا ہو اس کے خلاف دشمن قوتوں کو پاکستان کے ٹوٹ جانے کی افواہیں پھیلانے کے لئے زیادہ ذہنی مشقت کی ضرورت نہیں رہتی۔
ہم نے اکسٹھواں یوم آزادی اس عالم میں منایا ہے کہ ہماری ریاست کے اہم ترین اداروں کے سربراہان بھی آپس میں ایک جگہ مل بیٹھ کر ”پاکستان زندہ باد“ کا نعرہ نہیں لگاسکے۔ ایوان صدر نے اپنے طورپر نغمہ سرائی کی محفل بپا کی اور وزیراعظم ہاﺅس نے اپنا ”یوم پاکستان“ منایا۔ افواج پاکستان کے سربراہ نے احتیاط برتی اور وہ سیاسی کشمکش سے دور اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے کاکول اکیڈمی میں تشریف لے گئے۔ میں یہاں کسی ستون کے فیصلے کو غلط یا صحیح ثابت نہیں کرنا چاہتا صرف یہ سوال کہ جشن آزادی کے علیحدہ علیحدہ بندوبست سے دشمن ممالک کو کیا پیغام ملتا ہے‘ اہم ہے۔ آخر ہم اس قابل کیوںنہیں ہوسکے کہ کم از کم آزادی کے روز ہی ہم سب اکٹھے ہو کر بانی ء پاکستان کو خراج عقیدت پیش کرسکیں۔
داخلی صورتحال یہ ہے کہ فاٹا سے ہجرت کرکے آنے والے بے سہارا پاکستانی بہن بھائیوں کے لئے امداد کے اشتہارات شائع ہورہے ہیں اور بلوچستان میں آزادی کے روز ان قبائلی رہنماﺅں کو قتل کردیا گیا جو یوم پاکستان کی تقریب منعقد کرنا چاہتے تھے ۔فکری ہی نہیں جغرافیائی اعتبار سے بھی منتشر ملک کے ہر فرد کو سوچنا ہوگا کہ آخر ساٹھ برسوں میں ہم نے انفرادی اور اجتماعی طور پر ایسے کونسے جرائم کئے ہیں جن کی سزا ہمیں اس نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی کی صورت میں مل رہی ہے اور ہم مستقبل میں کونسا ایسے صالح عمل کریں کہ کم از کم اپنے جغرافیے کو ہی بچا سکیں۔
ہمارے ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر دوست جناب خالد کبریا اپنے ملکی حالات کا دیگر ترقی پذیر ممالک سے موازانہ کرتے رہتے ہیں وہ برس ہار برس کے مشاہدے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستانی عوام دنیا کی بہترین قوم ہے لیکن ہماری لیڈر شپ دنیا کی ناکام ترین لیڈر شپ ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس نتیجہ سے اس حد تک اختلاف ہے کہ ہم انفرادی طور پر بھی ایسی گمراہیوں میں مبتلا ہوگئے ہیں جن کی وجہ سے ہماری اجتماعیت قابل فخر نہیں رہی کیونکہ لیڈر شپ بھی عوام کے اندر سے ہی ابھرتی ہے ۔
اگر ہم میں سے ہر شخص آئندہ کے یوم آزادی کو مثالی طور پر منانے کا عہد کرے اور پاکستان کی خاطرکوئی ایک اچھا عمل اپنا لے تو کوئی مشکل نہیں کہ ہم انتشار کی بجائے اتحاد اور مایوسی کی بجائے امید اور وطن بیزاری کی بجائے حب الوطنی کے تحفوں سے مزّین نہ ہوسکیں۔
خدا کی قدرت اور کس قدر ہم پر مہربان ہو کہ پاکستان کے خونی حالات کو دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود جب سری نگر کے کشمیری مسلمان لاکھوں کی تعداد میں ”مظفرآباد چلو“ کے نعرے لگاتے گھروں سے باہر نکلتے ہیں تو ان کے ہاتھوں میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم ہوتا ہے۔ اس قدر اہم پاکستان کی ہمیں قدر وقیمت کا از سر نو اپنے اندر احساس پیدا کرنا چاہیے اور گولی سے تڑپتے کشمیری نوجوان سے پوچھنا چاہیے کہ آخر اسے پاکستان اپنی جان سے بھی کیوں عزیز تر ہے!
ملکوں کی تاریخ میں ہر لمحہ اہم ہوتا ہے۔چھوٹی سی غفلت بھی صدیوں پیچھے لے جاتی ہے۔غافل عوام ہوں یا حکمراں دونوں صورتوں میں ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ جب نظریاتی سکول” رائز“ میں انگریزی پڑھنے والے بچوں کو سندھی زبان کی ابتدائی تعلیم شروع کی تو ایک مزدور اکرم نے مجھ سے پوچھا کہ ”سندھی پڑھنے سے میرے بچے کو کیا فائدہ ہوگا؟
” سندھی بہن بھائیوں سے قربت بڑھے گی اور یہ بچہ پورے پاکستان کا معزز شہری بن جائے گا“ میر اجواب تھا۔ ہر کسی کو کوئی نہ کوئی صالح عمل کرنا ہے ۔ پاکستان اپنے تمام تر داخلی خرابیوں کے باوجود تمام آزادی پسند قوموں کاآئیڈیل ہے ۔ یہ اس قدر قیمتی اور پیارا ملک ہے کہ بقول شاعر‘
گوشکستہ دل ہیں تیری تغافل شعاریاں
اس پر بھی مجھ کو تجھ سے محبت ہے کیا کروں