Sep
04
|
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف نے درست طور پر محسوس کیا ہے کہ تمام پارٹیوں کے مینڈیٹ کا احترام کیا جانا چاہیے۔ ان کی یہ بات بھی سو فیصد صحیح ہے کہ سیاسی کشیدگی بڑھنے سے موجود جمہوری نظام کو شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔
یقینا میاں صاحب نے یہ حقیقت پنجاب میں اپنی حکومت کے حوالے سے واضح کی ہوگی لیکن اصول کی بات یہ ہے ہم جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں وہی اپنے بھائی کےلئے پسند کیوں نہیں کرتے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اگر محترم نوازشریف ہم آہنگی اور سیاسی رواداری کا یہی مظاہرہ جناب آصف علی زرداری کے حق میں بھی کرتے اور جلدی میں اپنی جماعت کی طرف سے ایک متنازعہ ریٹائرڈ جج کو مقابلے پر نہ لاتے تو ملک کی سیاسی فضا میں جو مخالفانہ لہریں سر اٹھا رہی ہیں وہ پیدا ہونے سے پہلے ہی بے اثر ہوجاتیں۔ کیاں میاں صاحب کو علم نہیں ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کا مینڈیٹ کیا ہے اور جناب آصف علی زرداری کی اس وقت وفاق میں اہمیت کیا ہے؟
یہ بات دہرانے کی نہیں کہ پی پی پی ہی پاکستان کی وہ واحد اکثریتی پارٹی ہے جسے پاکستان کے چاروں صوبوں میں موثر نمائندگی حاصل ہے۔ گویا یہ وہ واحد سیاسی پارٹی ہے جس کے سر پر صوبہ سندھ‘ بلوچستان‘سرحد اور پنجاب کے عوام نے اپنے ووٹوں سے وفاق پاکستان کا سہرا سجایا ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں اور گروہوں کو سچے دل کے ساتھ عوام کے اس فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے مرکز میں پی پی پی کو اقتدار سونپ دینا چاہیے تھا۔ میثاق جمہوریت میں یہی بنیادی نقطہ طے ہوا تھا۔ میاں محمد نوازشریف نے اس وقت تک سیاسی مفاہمت کا زبردست مظاہرہ کیا جب تک جنرل (ر) پرویز مشرف صدارت کے منصب پر قابض رہے۔ لیکن یہ افسوس کا پہلو ہے کہ جونہی پرویز مشرف منظر سے ہٹے ہیں جناب نوازشریف کا لہجہ تبدیل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جناب میاں نوازشریف نے اپنے بدترین دشمن کو گھر بھجوانے کے لئے جناب آصف علی زرداری کو استعمال کیا اور جونہی یہ غرض پوری ہوئی پھر زرداری کو ناقابل عمل وعدوں کی زنجیر میں باندھنا شروع کردیا اور آخری چال کے طور پر ”ڈیڈ لائن“ کا جھٹکا دے کر حکمران اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لی۔ جہاں تک ججوں کی بحالی کا تعلق ہے تو یہ حقیقت ہے کہ معزول ججوں کی بحالی کا آئینی طریقہ کار طویل اور پیچیدہ ہے اور آئینی ماہرین سے مسلسل مشاورت کے بعد ہی سندھ اور پنجاب کے درجن بھر سے زائد جج بحال کئے جاسکے ہیں۔ قوی امکان ہے کہ جناب زرداری کے عہدہ صدارت سنبھالتے ہی باقی معزول جج صاحبان بھی بحال ہوجائیںگے۔
جناب میاں نوازشریف کو بروقت نہ سہی لیکن جلد ہی سیاسی ہم آہنگی اور عوامی مینڈیٹ کے احترام کا خیال آگیا ہے۔ ایسی سندر سوچ کے پیچھے یہ خوف عمل کارفرما دکھائی دیتا ہے کہ کہیں پنجاب میںمسلم لیگ (ن) کی حکومت کا بوریا بستر نہ لپیٹ دیا جائے اور میاں برادران جانتے ہیں کہ ایک بار اگر اقتدار ہاتھ سے نکل جائے تو پھر برسوں کی ریاضیت کے بعد ہی کوئی موقعہ ملتا ہے۔ میاں صاحب کو جناب زرداری کا یہ احسان کبھی نہیں بھلانا چاہیے کہ انہوں نے صدر مشرف کے ساتھ کوئی سودا بازی کرنے کی بجائے میاں نوازشریف کے بدترین دشمن کے گرد اس قدر گھیرا تنگ کیا کہ استعفیٰ کے سواکوئی چار ہ نہ رہا۔ آج اگر پی پی پی اور مشرف اکٹھے ہوتے تو میاں برادران کو شاید ایک بار پھر نااہلی‘جلاوطنی اور دربدری کے عمل سے گزرنا پڑتا۔سیاسی رواداری‘جمہوری سوچ اور عہد نبھانے کے لئے جناب آصف علی زرداری کا کردار تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔
سندھ اسمبلی‘بلوچستان اسمبلی اور سرحدا سمبلی میں جناب آصف علی زرداری کو صدر پاکستان بنانے کے لئے امنگیں جوان ہیں ۔ ایم۔ کیو ۔ایم نے آگے بڑھ کر جناب زرداری کو صدارت کے لئے نامزد کیا ہے ۔آج کے پاکستان کا یہی بڑا مسئلہ ہے کہ کوئی مرد اعتبار تو ایسا ہو جس پر بلوچ‘مہاجر‘ پٹھان اور پنجابی سب متفق ہوسکیں۔ اتفاق کا ایک منظر قیام پاکستان کے دنوں میں دکھائی دیتا تھا۔ ظاہر ہے جناب زرداری قائداعظمؒ یا قائد عوام تو نہیں بن سکتے لیکن ان کے نقش قدم پر چلنے کی صلاحیت ضرور رکھتے ہیں۔ یہی وہ صلاحیت ہے جس کا ادراک کرتے ہوئے چاروں اکائیوں کے کروڑوں عوام جناب زرداری کو قصرِ صدارت میں خدمات سرانجام دیتے دیکھنا چاہتے ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ جناب میاں محمد نوازشریف دل بڑا کریں۔ ناراض ہونے کی بجائے حقائق کو قبول کریں اور پنجاب کی طرف سے باقی تینوں صوبوں کے ساتھ ہم آواز ہوکر جناب زرداری کے حق میں اپنا امیدوار دستبردار کروا دیں۔ ہمیں احسان کا بدلہ احسان سے دینا چاہیے اور جس طرح (ن) لیگ کے راستے کے بھاری پتھر کو جناب زرداری نے اپنے عزم‘ حوصلے اور دانشمندی سے دور کیا ہے۔ اسی طرح جناب میاں نوازشریف جناب زرداری کے راستے کی کنکریاں اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر دور پھینک دیں۔ حزب اختلاف میں رہنا پارلیمانی نظام کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ میاں صاحب کو حق ہے کہ وہ اپنے کسی نمائندے غالباً چوہدری نثار صاحب کو قائد حزب اختلاف نامزد کردیں۔ لیکن سیاسی رواداری اور برداشت کے تقاضے نبھانے کیلئے میدان کھلا پڑا ہے۔ اگر 80ءاور 90ءکی دہائی کی تلخ یادیں دہرانا نہیں چاہتے تو پھر کولیشن حکومت کو چلنے دیں۔ آخر باقی ممالک میں بھی تو حکمران اتحاد بنتے اور اپنی انتخابی مدت پوری کرتے ہیں۔