Nov
02
|
Click here to View Printed Statement
معروضی حالات اور زمینی حقائق کے ادارک کا دعویٰ کرنے والے ہمارے تمام سکہ بند قسم کے دانشور ہمیں امریکہ سے ڈرنے کے مسلسل مشورے دیتے ہیں ۔ وہ ایسے ایسے دلائل پیش کرتے ہیں کہ اچھا خاصا بہادر آدمی خوف زدہ ہو کر کانپنے لگتا ہے۔ اپنے بچوں کے محفوظ مستقبل کی خاطر امریکی سی آئی اے کی مثبت رپورٹ کے لئے ہمارے اکثر وفاقی سیکرٹریز‘حکومتی عہدیداران جرنیل ‘صنعتکار اور جاگیردار قسم کے لوگ امریکہ کیخلاف بولنا تو درکنار سوچنے کا بھی رسک نہیں لیتے۔
اگر کہیں سچ بولنے کی کوئی مجبوری آن پڑے تو بھی گفتگو میں توازن برقرار رکھتے ہیں اور مناسب وقت پر مخصوص امریکی حلقوں کو اپنے بیان‘ تحریر یا کمنٹس کی وضاحت بھی بھجوا دیتے ہیں امریکی بالادستی کا بلامشروط قائل گروہ اپنی خوف زدگی کا جواز بھی ”قومی مفاد“ کی اصطلاح میں ہی تلاش کرتا ہے۔ پاکستان میں رائے عامہ بنانے والے اکثر ادارے‘افراد اور گروہ امریکہ کو ”بدمست ہاتھی“ کہہ کر اس کے سامنے آنے‘ اس سے مخالفت مول لینے یا اس کو ناراض کرنے کو پاکستانی مفادات کے خلاف احمقانہ عمل قرار دیتے ہیں۔ چونکہ ملک کے حکمران طبقات میں غالب گروہ ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہے اس لئے ہماری قومی پالیسیاں گھوم پھر کر امریکی مفادات کے ہی تابع بنتی ہیں۔منتخب نمائندوں کاان کیمرہ اجلاس ہوعسکری قیادتوں کی بریفنگ ہوں یا فارن آفس کی طرف سے حقائق نامے مہیا کئے جائیں تان آ کر واشنگٹن سے دوستی بڑھانے پر ہی ٹوٹتی ہے۔ یہ عجب المیہ ہے کہ خود امریکی حلقے تسلیم کرتے ہیں کہ تمام پاکستانی قوم ہمیشہ سے امریکہ کی مخالف رہی ہے۔ لیکن حکومتیں اور بااختیار ادارے ہمیشہ ہی امریکی لابی کا ہر اول دستہ رہے ہیں۔ امریکیوں کے پاس ایسے خوفناک ہتھ کنڈے ہیں کہ وہ ہمارے حکمرانوں کو خوف اور حرص کی بیماری میں مبتلا کردیتے ہیں۔
جنرل (ر) حمید گل بھی لیفٹیننٹ جنرل رہے ہیں۔ ذرائع اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ انہیں آئی۔ایس۔ آئی کی سربراہی سے بھی صرف امریکیوں کو خوش کرنے کے لئے ہٹایاگیا۔ کیونکہ ضیاءالحق دور میں امریکی خواہش کے متضاد”سرگرمیوں“ میںمصروف رہے اور انہوں نے جنیوا معاہدہ نہ کرنے پر زور دیا تھا۔
حمید گل (ر) بھی گوشت پوست کے انسان ہیں۔ ان کے بچے ہیں‘ عزیز واقارب ہیں۔ ان کے بھی انسانی سطح کے تمام ذاتی مفادات ہیں۔ لیکن انہیں امریکہ سے ڈر نہیں لگتا۔ وہ امریکی مفادات کو پاکستانی عوام کے سامنے بغیر کسی اگر مگر کے طشت ازبام کرتے ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ امریکی سی۔آئی۔ اے نے انہیں ناپسندیدہ پاکستانیوں کی فہرست میں پہلا نمبر دیا ہوا ہے۔ صدر مشرف پر بہت دباﺅ تھا کہ وہ طالبان سے رابطوں کا الزام لگا کر جنرل (ر) حمید گل کو گرفتار کرے۔ہماری ایجنسیاں اس ”کارخیر“ پر کافی عرصہ جتی رہیں لیکن کوئی معمولی نوعیت کا بھی ثبوت نہ ملنے پر ہاتھ ڈالنے کی جرات نہ کرسکیں۔ مشرف صاحب نے ”سوڈوانٹیلیکچوئل“ کہہ کر اپنے غصے کا اظہار کیا۔
گزشتہ دنوں نظر ءیہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر انتظام دو روزہ نظر ءیہ پاکستان کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ آبروئے صحافت جناب مجید نظامی نے جنرل (ر) حمید گل صاحب کو بھی خطاب کے لئے مدعو کیا ہوا تھا۔ حمید گل اپنے بیٹے عبداللہ گ±ل کیساتھ اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ انہوں نے بڑی وضاحت کیساتھ پاکستان کے روشن مستقبل کے حوالے سے قابل غور نکات بیان کئے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور یورپ کو اس دن سے ڈرنا چاہیے جب معاشی دباﺅ سے مجبورہو کر پاکستان ایٹمی ٹیکنالوجی کوفروخت کرنے کا فیصلہ کرے۔ انہوں نے عالمی قرض خواہوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی بجائے حکومت پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ قرضے ادا کرنے سے انکار کردے۔ جنرل (ر) صاحب کا موقف تھا کہ یہ قرضے بدنیتی کی بنیاد پر دیئے گئے۔ پاکستانی قوم سے پوچھا نہیں گیا۔ پاکستان ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔کرپشن کے ذریعے یہ قرضے واپس قرض خواہوں کے بینکوں میں پڑے ہیں۔ اگر انہیں اپنے قرضے واپس لینے ہیں تو اپنے ہاں بینکوں میںپڑے حکمران طبقہ کے اربوںڈالر ضبط کرکے پاکستان کی جان چھوڑ دیں۔ جنرل (ر) حمید گل نے یہ بھی بتایا کہ امریکہ آئندہ افغانستان سے بھاگنے کی تیاریاں کر رہا ہے اور ہماری حکومت افغانستان میں مستقبل قریب کے حکمرانوں سے جنگ میں مصروف ہے۔ جنرل صاحب کا موقف تھا کہ روس کے بکھرنے سے سوشلزم کا نظام ختم ہوگیا۔ امریکہ کا سرمایہ دارانہ نظام ایڑیاں رگڑ رہا ہے ۔ دنیا کے لئے متبادل نظام صرف اور صرف اسلامی نظام معیشت ہے۔ اگر پاکستان میں آج ہم یہ نظام لاگو کردیں تو پاکستان پوری دنیا کے لئے رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکتا ہے۔ انہوںنے اقبال کے اشعار اور قائداعظم ؒ کے ارشادات کی روشنی میں ثابت کیا کہ پاکستان دنیاکی قیادت کےلئے ہی معرض وجود میں آیاہے۔جونہی ہم امریکی غلامی سے نجات کا اعلان کریں گے ہم دنیا کے لئے نجات دہندہ بن جائیں گے۔
حمید گل بغیر کسی سکیورٹی کے آئے۔ خطاب کیا‘کھانا کھایا اور بیٹے کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے ۔میں نے جنرل (ر) صاحب سے پوچھا ”آپ کو امریکہ کیخلاف یوں کھلے عام بات کرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا“
”میں امریکہ کو امریکیوںسے زیادہ جانتا ہوں۔ وہ بزدل ہیں صرف ٹیکنالوجی نے انہیں بہادر بنا رکھا ہے“۔ سچے جرنیل کا جواب تھا کاش کہ ہمارے حکمران طبقات بھی امریکہ کو جاننے کی کوشش کریں۔ وہ اپنے ذاتی مفادات کےلئے پوری قوم کو امریکہ سے ڈرانے کا جرم نہ کریں۔ قائداعظمؒ اور اقبال کی یہ ملت امریکی حملوں کے باوجود خوفزدہ نہیں ہورہی۔ حکمران کیوں کپکپا رہے ہیں؟۔