Jan
18
|
Click here to View Printed Statement
ممبئی حملوں کے اصل ذمہ داروں کے تعین کے لئے ابھی بہت وقت درکار ہے۔ بھارت کیطرف سے دی گئی معلومات کے نتیجے میں پاکستانی حکام نے جن تنظیموں اور گروہوں کے سرکردہ رہنماﺅں کو گرفتار کیا ہے اور جن کی انکوائری شروع کردی گئی ہے ان تمام افراد اور گروپوں کا تعلق کسی نہ کسی طرح آزادی کشمیر سے جڑا ہوا ہے۔ جوں جوں یہ انکوائری آگے بڑھے گی اور ملزمان کو عدالت کے روبرو پیش کیا جائے گ
ا‘کشمیر کا مسئلہ منظر عام پر آتا جائے گا۔ پاکستانی عوام کی طرف سے پیپلزپارٹی کی حکومت پر دباﺅ آئے گا کہ مسئلہ کشمیر کی بات کئے بغیر محض بھارت کو مطمئن کرنے کے لئے لشکر طیبہ اور جماعت الدعوہ کے رہنماﺅں کو گرفتار کرکے مقدماّت چلانا یکطرفہ کارروائی ہے اور کشمیریوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ پانچ فروری کو یوم کشمیر کے حوالے سے جب بڑی بڑی ریلیاں نکلیں گی تو یہ مطالبہ زور پکڑے گا کہ ملزمان کی انکوائری کے ساتھ ساتھ بھارت کو مسئلہ کشمیر حل کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اور ممبئی حملوں کے ذمہ داران کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرنے سے پہلے کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا معاملہ اٹھایا جائے یہ بات بھی ہوگی کہ بھارت اپنے ان فوجیوں پر مقدمات چلائے جنہوں نے کشمیر کے اندر انسانی حقوق کو پامال کیا ہے اور کر رہے ہیں۔”دہشت گردی“ اور”تحریک آزادی“ کی نئی تعریف کی بھی ضرورت پڑے گی اور یوں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بار پھر مسئلہ کشمیر پوری قوت کے ساتھ سر اٹھائے گا۔
مستقبل میں پاک بھارت تعلقات کے نارمل ہونے کا انحصار صرف اور صرف آزادی کشمیر سے ہے۔ اسی صورتحال کو بھانپتے ہوئے امریکہ کے نو منتخب صدر باراک اوبامہ نے بہت پہلے ہی مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت محسوس کرلی تھی ۔ چند روز قبل برطانیہ کے سیکرٹری خارجہ نے بھارت کے اندر بیٹھ کر مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ہوسکتا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ مسئلہ کشمیر حل اس لئے حل کرانا چاہتے ہوں کہ پاکستان اور بھارت باہمی چپقلش چھوڑ کر ”دہشتگردی“ کے خلاف امریکی جنگ میں یکسوئی اختیار کرسکیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دونوں بڑی طاقتیں واقعتاً یہ چاہتی ہوں کہ کشمیر کا معاملہ اس لئے حل ہوجائے تاکہ پاکستان اور کشمیر کے اندر موجود جہادی تنظیموں کا مسلح جدوجہد کا بہانہ ختم ہوجائے۔ نیت جو بھی ہو لیکن اگر امریکہ‘برطانیہ اور دوسری عالمی برادری پاکستان کا ساتھ دے تو شائد ممبئی حملوں کے بعد پیدا ہونے والی آتشیں صورتحال سے بہتری کشید کی جاسکے۔
افسوس یہ کہ بھارت نے جہاں باراک اوبامہ کی کشمیر کے حوالے سے تجاویز کو یکسر ردّ کردیا تھا اب وہ ملی بینڈ کی نصحیت کو بھی اپنے معاملات میں مداخلت قرار دے رہا ہے ۔”ہم آزاد ملک میں اور اپنے فیصلے خود کرتے ہیں “۔ برطانوی وزیرخارجہ کے موقف کی تائید کی بجائے بھارتی حکمران ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع ہوگئے ہیں ۔ اگر بھارت واقعی آزادہے تو پھر اسے کشمیریوں کو غلام رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ معروف دانشور اور تحریک آزادی پاکستان کے رہنما محترم نسیم انور بیگ کہتے ہیں ”کوئی ملک اس وقت تک آزاد نہیں ہوسکتا جبکہ وہ دوسروں کی آزادی سے خوف زدہ رہے“۔ بھارت کی ذہنی کیفیت یہی رہی ہے۔ وہ کشمیریوں کی آزادی سے خوف زدہ رہتا ہے اور اسی خوف نے اسے دماغی طور پر غلام بنا رکھا ہے۔ آزادی کے گزشتہ ساٹھ برسوں میں اسی غلامانہ احساس کے نتیجے میں جنوبی ایشیاءمیں امن قائم نہیںہوسکا۔ کشمیر کے حوالے سے اپنے غیر منصفانہ طرز عمل کے سبب برصغیر پر ہر وقت جنگ کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں۔تین بار جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔ جو بجٹ خطے کے ڈیڑھ ارب انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ ہونا تھا وہ اسلحہ کی نذر ہورہا ہے ۔بھارت خود کو بڑا کہتا تھکتا نہیں پھر اپنی بڑائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تقسیم ہند کے نامکمل عمل کو مکمل کیوں نہیںہونے دیتا۔
چند تنظیموں اور ان کے رہنماﺅں پر پابندی لگانے سے کیا ممبئی جیسے واقعات رک جائیں گے؟۔ اگر حکومت نے یکطرفہ طور پر ”جہاد کشمیر“ کو ختم کرنے کی کوششیں کیں تو یہ جہادی گروہ کسی قسم کے کنٹرول سے باہر ہوجائیں گے اور خود پاکستان ان کے ردّعمل سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔”نان اسٹیٹ ایکٹرز“ کسی ملک تک محدود نہیں ہوتے۔ ان کے لئے جغرافیائی سرحدیں بے معنی ہوجاتی ہیں اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز کہاں کہاں ان کا پیچھا کریں گی؟ جب بھی مظلوم کشمیری دنیا کو اپنی آزادی کے لئے پکاریں گے انسانی اور اسلامی جذبات کوئی نہ کوئی مسلح شکل اختیار کرلیں گے۔کیونکہ ناانصافی اور ہٹ دھرمی کے مقابلے پر ہمیشہ شدت پسند رجحانات ہی جنم لیتے ہیں۔
تقسیم ہند کا مقصد اس برصغیر میں دو مملکتوں کا قیام تھا جنہوں نے برابری کی سطح پر آگے بڑھنا تھا اور اپنے عوام سے کئے ہوئے خوشحالی اور امن کے وعدے پورے کرنے تھے ۔ افسوس کہ بھارت نے اپنے بھاری وجود کے زعم میں کشمیرپر قبضہ کر رکھا ہے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان نہ ختم ہونے والی کشیدگی کی بنیاد رکھ دی ہے۔یہ وہ حقیقت ہے جسے برطانیہ خوب جانتا ہے ۔ ملی بینڈ کے آباﺅ اجداد نے ہی خونی لکیر کھینچ کر جنوبی ایشیاءمیں خون بہانے کے راستے کھولے تھے ۔ آج اگر برطانیہ کی نئی نسل اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے بھارت کو مسئلہ کشمیر حل کرنے پر آمادہ کر رہی ہے تو بھارتی قیادت کو اسے انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ اگر اب بھی بھارت سچ کا ساتھ نہ دے سکا تو پھر ممبئی جیسے واقعات کو روکنا مشکل ہوجائے گا۔اور خطرہ ہے کہ ایسے کسی اور واقعہ کے نتیجے میں یہ خطہّ خوفناک تباہی سے دوچار ہوجائے گا۔
کاش کہ عالمی برادری بھارت کو قائل کرسکے۔ کاش کہ مسئلہ کشمیر حل ہوجائے۔ ورنہ ”غزوہ ہند“ کے تصوّر سے لبریزگروہ پھر کسی موقع کی تلاش میں ہیں!