Feb
03
|
Click here to View Printed Statement
غریب کو کیا چاہیے؟ دو وقت کی روٹی ۔سونے کے نوالے تو صرف اس ملک کے دو فیصد لوگ کھاتے ہیں۔ سولہ کروڑ پچھتر لاکھ پاکستانی تو دال روٹی کے طلبگار ہوتے ہیں۔ زرعی م±لک‘ محنت کش کسان‘ بہترین نہری نظام اور سونا اگلتی زمینیں۔ ہر سال بمپر کراپ ! پھر بھی غریب کو روٹی دستیاب نہ ہوسکی۔
سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں چھ کروڑ لوگ ایسے ہیں جن کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے۔ یہ نہیں کہ آٹا نہیں بلکہ آٹے کا حصول ناممکن بنا دیاگیا۔ اپنی گندم باہر بیچی گئی۔ اور باہر سے مہنگی گندم درآمد کی گئی۔ روٹی جو چند سال پہلے عام پاکستانی کی قوت خرید کے مطابق تھی‘ وہ بھی خواص کیلئے مختص ہوگئی۔ آٹے کے حصول کیلئے لمبی لمبی قطاریں‘قطاروں پر پولیس کی یلغاریں۔ عورتیں زخمی۔ بچے بے حال۔ روٹی کے لئے یہ عذاب سہنے پڑیں گے‘کبھی کسی نے سوچا نہ تھا۔
جناب شہباز شریف نے وزارتِ اعلیٰ کا منصب سنبھالا تو ان کا پہلا اعلان ہی یہی تھا کہ وہ صوبہ بھر میں روٹی دو روپے میں کردیں گے اپنے اور بیگانے یہ اعلان سن کر ششدر رہ گئے۔اپنوں کو تشویش کہ اگر ایسا نہ ہوسکا تو سیاسی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ اور بیگانوں کی خوشی کہ ایسا اعلان کردینے کے بعد میاں شہبازشریف دلدل میں پھنس جائیں گے۔ آٹا سستا ہو گانہ ہی روٹی دو روپے میں ملے گی اور یوں ان کو مذاق اڑانے کا موقع مل جائے گا۔ بعض کالم نویسوں نے میاں شہبازشریف کے اس اعلان کو سیاسی حماقت قرار دیا۔”کیا اب پنجاب حکومت کی ساری توانائیاں صرف دو روپے کی روٹی فراہم کرنے میں صرف ہوجائیں گی“۔بعض دانشوروں کا خیال تھا ۔”سستی روٹی مسائل کا حل نہیں اصل مسئلہ غریبوں کی قوت خرید بڑھانا ہے“۔سچ یہ ہے وزیراعلیٰ پنجاب کا حوصلہ توڑنے کی ہر کوشش کی گئی۔ سب سے بڑی رکاوٹ تو مسلم لیگ (ن) کے بعض اپنے مل مالکان تھے۔ ایسا بھی ہوا کہ بعض ضلعوں میں ضلعی انتظامیہ نے ہاتھ کھڑے کردیئے۔
میاں شہبازشریف نے اپنے ارادے کی پختگی اور غریبوں سے دلی ہمدردی کے سبب ہر رکاوٹ پر قابو پایا۔ تندور والے حیل وحجت سے کام لیتے رہے۔لیکن شہبازشریف بڑی تیزی کے ساتھ غریب پروری کے اس ایجنڈے پر آگے بڑھتے چلے گئے اور گزشتہ پانچ چھ ماہ سے یہ معجزہ ہورہا ہے کہ پنجاب کے ہر ضلع ‘ تحصیل اور دیہات میں دو روپے کی روٹی مل رہی ہے۔
سستی روٹی کے اصل مستحق وہ لوگ تو نہیں ہوسکتے جو بڑے ہوٹلوں میں ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں اور سوڈیڑھ سو روپے کا صرف پانی پی جاتے ہیں۔ پنجاب حکومت کے سستا آٹا پروگرام کو نقب لگانے کے لئے بڑے اور مہنگے ہوٹلوں کے مالکان نے اپنی روایتی بددیانتی کے مظاہرے شروع کردیئے۔ مل مالکان کے ساتھ گٹھ چھوڑ کر غریبوں کے حصے کا آٹا ہتھیانا شروع کردیا۔ شہبازشریف کی عقابی نگاہوں نے بروقت اس واردات کو بھانپ لیا۔ اور فوری طور پر فیصلہ کیا ہے کہ غریبوں کے حصے کا آٹا اب امیروں کے ہوٹلوں کو فراہم نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ آٹے کی کھیپ پسماندہ بستیوں کی طرف منتقل ہوجائے گی۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ نے سینئر مشیر کی سربراہی میں سینئر وزیر‘وزیرخزانہ اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری پر مشتمل ایک کمیٹی بھی بنا دی ہے جو صنعتی علاقوں‘مزدور بستیوں اور غریب آبادیوں میں موجود تندوروں پر سستے آٹے کے کوٹہ میں تین گنا تک اضافہ کو یقینی بنائے گی اور عوامی نمائندے اس ترسیل کی نگرانی کریں گے۔
وزیراعلیٰ پنجاب جو خود کو خادم اعلیٰ پنجاب کہلوانے میں راحت محسوس کرتے ہیں ۔ غریبوں کی حالت سنوارنے کے مشکل ترین کام میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘
”سستی روٹی کے پروگرام کا بنیادی مقصد بھوک‘ افلاس‘ اور مہنگائی کے ستائے ہوئے لوگوں کا پیٹ بھرناہے ۔ مہنگے ہوٹلوں پر غریب آدمی کھانا کھانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا پھر ان کو سستا آٹا کیوں فراہم کیا جائے۔“
حکومت پنجاب کی طرف سے تمام رجسٹرڈ تندوروں کے باہر سستی روٹی کے ایسے بینرز لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جن کے اوپر متعلقہ حکام کے فون نمبر درج ہوں گے اور شکایت کی صورت میں شہری فوری طور پر رابطہ کرسکیں گے۔ حکومت کا یہ پروگرام بھی ہے کہ رجسٹرڈ تندوروں کی تعداد بڑھا کر تیس ہزار کردی جائے تاکہ بستی بستی سستی روٹی دستیاب ہوسکے۔سچ یہ ہے کہ آج کے دگرگوں اقتصادی حالات میں غریبوں کے لئے سستی روٹی ”من وسلویٰ“کے تصور سے کم نہیں….!