Feb
20
|
Click here to View Printed Statement
صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری کو بہرحال یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ اپنی حکمرانی کے انداز میں مشاورت کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔اب تک کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر پاکستان نے اپنے مشیروں اور مشاورت کے دائرہ کار کو اپنی پارٹی یا کسی کچن کیبنٹ تک محدود نہیں رکھا بلکہ کسی اشو سے متعلقہ ہرگروہ اور حلقے کو اعتماد میں لیکر ہی کوئی فیصلہ کیا ہے
۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائی کا معاملہ ہو یا مالاکنڈ اور سوات کا ایشو‘صدر آصف علی زرداری نے بڑی خاموشی کے ساتھ مشاورت جاری رکھی اور معاملے کی تہہ تک پہنچ جانے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا ہے راقم کا چونکہ تعلق بھی نواب شاہ سے ہے۔ اس لئے بعض احباب شائد جناب زرداری کے حق میں میرے ابتدائی جملوں کو علاقائی تعصب سمجھ بیٹھیں لیکن میں محض اس الزام سے بچنے کے لئے صدر مملکت کی جائز حوصلہ افزائی کا فریضہ ترک نہیں کرسکتا۔
سب جانتے ہیں کہ مالاکنڈ خصوصاً سوات کے لوگوں کا یہ دیرینہ مطالبہ تھا کہ انہیں سستے اور فوری انصاف کے لئے شرعی عدالتوں کے قیام کی سہولت دی جائے۔ جہاں تک اس مطالبے کے انسانی پہلوﺅں کا تعلق ہے تو ہر شہری کا یہ بنیادی حق ہے کہ اسے کم از کم مدت میں بغیرکسی بھاری اخراجات کے انصاف ملتا رہے اور ریاست کا بھی یہی فریضہ ہے کہ وہ شہریوں کے مقدمات کو نپٹانے کے لئے ایسے عدالتی نظام کی داغ بیل ڈالے جو عوامی اور انسانی تقاضوں کو احسن انداز میں نبھا سکے۔بعض تنگ نظر ماہرین قانون اور انسانی حقوق کے ترجمان مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذ عدل کو ماورائے آئین اور انسانی حقوق کے خلاف عمل قراردے کر صوبہ سرحد کی منتخب حکومت‘تمام سیاسی اکابرین اور پورے جمہوری نظام کے ساتھ دانشورانہ زیادتی کر رہے ہیں۔ پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن کے لئے جس نظام عدل کا مسودہ صدر مملکت کو منظوری کیلئے پیش کیا گیا تھا وہ آئین پاکستان کی شق نمبر 2 کے عین مطابق ہے۔ پاکستان کا آئین اس بات پر زور دیتا ہے کہ ملک کے اندر کوئی بھی قانون قرآن وسنت سے متصادم نہ رہے۔ اسی غرض و غائیت کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل کی گئی تھی۔ تو یہ مملکت کی ذمہ داری تھی کہ وہ تمام قوانین کا جائزہ لے کر ملک بھر میں شرعی نظام نافذ کردیتی لیکن اسے ماضی کی حکومتوں کی نااہلی ہی تصور کیا جائے گا کہ مواقع اور عوامی حمایت حاصل ہونے کے باوجود یہ ضروری کام نہ ہوسکا۔ ماضی میں میاںنوازشریف کے دوسرے دور حکومت میں چودہویں ترمیم اس طرف ایک کوشش تھی لیکن مسلم لیگ کے اندر موجود سیکولر عناصر نے اس بل کو منظور ہونے نہ دیا اور میاں محمد نوازشریف پر ”امیر المومنین“ بننے کا الزام لگا دیا گیا۔ صوبہ سرحد میں ایم۔ایم۔اے کی حکومت نے حسبہ ایکٹ کی شکل میں دراصل مالاکنڈ ڈویژن اور صوبہ بھر کے عوام کی شرعی عدالتی نظام کے حوالے سے تڑپ کو ہی پورا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن صدر پرویز مشرف کی حد سے بڑھی ہوئی روشن خیالی اس ایکٹ کی راہ میں حائل رہی۔
شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کے صاحبزادے اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے حوالے سے اہمیت کی حامل شخصیت جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل پر تبصرہ کرتے ہوئے بڑے ہی غیر محتاط الفاظ ادا کئے ہیں۔ کم از کم ابن اقبال کو شرعی قوانین کی مخالفت نہیںکرنی چاہیے تھی۔اسی طرح جناب اقبال حیدر جیسے جید قانون دان کو بھی حقائق کویوں مسخ کرکے پیش نہیں کرنا چاہیے۔
کسی ملک کا اصل مسئلہ کتابوں میں لکھے گئے قوانین نہیں ہیں۔ کون نہیں جانتا پاکستان کا عدالتی نظام انصاف دینے کی بجائے انصاف کی تجارت کو فروغ دے رہا ہے۔ جہاں انصاف کے لئے سائلین کی عمریں اور نسلیں ضائع ہوجائیں) ایسے نظام کو محض اس لئے گلے لگائے رکھنا اور کوئی متبادل تجربہ نہ کرنا کہ یہ ہمیں ورثہ میں ملا ہے‘ جہالت ہے۔ حیرت ہے کہ پاکستان میں رہتے ہوئے ہم شرعی قوانین کا نام لینے سے شرماتے ہیں۔امریکہ کے اندر ہر ریاست کا الگ قانون ہے لیکن وہاںکبھی کسی کو تشویش نہیں ہوئی کہ ایک ہی ملک میں آخر اتنے سارے قوانین کیوں ہیں۔سعودی عرب میں شرعی قوانین نافذ ہیں اور تمام بین الاقوامی ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ سعودی عرب میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے اور دنیا میں اس وقت سعودی عرب سب سے بڑی فلاحی ریاست ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے ”روشن خیالوں“ کو شریعت کا نام سن کر پسینے آنے شروع ہوجاتے ہیں اور ہم خود ہی واویلا کرنا شروع کردیتے ہیں کہ ایسا کرنے سے امریکہ ناراض ہوجائے گا۔ امریکہ کو پاکستان میں امن اور خوشحالی سے غرض ہونی چاہیے۔ اگر امریکہ پاکستان میں بدامنی کا خواہاں ہے تو ظاہر ہے کہ یہ پاکستان کے ساتھ کوئی دوستی نہیں ہوسکتی۔
جناب آصف علی زرداری نے انتہائی معاملہ فہمی کا ثبوت دیا ہے اور بالآخر مالاکنڈ ڈویژن کے لاکھوں لوگوں کے دلوں کی آواز پر دستک دیتے ہوئے امن کے قیام کی ٹھوس بنیاد رکھ دی ہے۔اب اگر نظام عدل کے نفاذ سے صوبہ سرحد کے ایک علاقے میں امن اور انصاف میسر آجائے گا تو اس تجربہ کو وسعت دے کر پورے صوبہ سرحد یا پختونخواہ میں بھی نافذ کیا جاسکے گا اور اسے باقی صوبوں میں بھی درجہ بدرجہ لاگو کیا جاسکتا ہے۔ بے بنیاد خدشات کا اظہار کرکے صدر زرداری کی ذہانت اور اہلیت اور صوبہ سرحد کے عوام کی انتہائی جائز خواہشات کا مذاق اڑانا بند کیا جانا چاہیے ۔