Feb
22
|
ترجمہ:”خوب جان لو کہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہوگئی تو اسے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشتکار خوش ہوگئے۔ پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے۔ اس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور وہ جنت جس کی وسعت آسمان اور زمین جیسی ہے جو مہیا کی گئی ہے ان لوگوں کےلئے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں۔یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔اور اللہ بڑے فضل والا ہے“۔(سورہ حدید)
قرآن کریم انسانی زندگی کا نقشہ کھینچ رہا ہے۔موت پر تو ہر انسان کا ایمان ہے لیکن اس کے باوجود ہم میں سے کوئی موت کا تصور بھی لانے کو تیار نہیں۔ اس کا تذکرہ کرنا۔اس کو آگے بیان کرنا اور اس موضوع پر سوچنا۔غوروفکر کرنا تو دور کی بات ہے کہیں ہلکا سا خیال بھی دل میں آجائے تو ہم اسے جھٹکنے اور بھگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ہم فریب میں مبتلا ہیں اور ”شیطان الرجیم“ نے اس معاملے میں ہمیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ہمارا پیارا بیٹا اگر ماں باپ کے سامنے غلطی سے موت کا ذکر کرلے تو ہم ناراض ہوجاتے ہیں اور اسے پیار سے ڈانٹتے ہیں کہ ”نہ بیٹانہ ایسی بات منہ سے نہ نکالنا“کیسی عجیب بات ہے ریل گاڑی یا بس میں بیٹھا مسافر اگر اپنے ساتھ کی سیٹ پر بیٹھے مسافر سے اس کی کمائی کے بارے میں پوچھ لے یا اس کے بچوںکے بارے میں دریافت کرلے یا اس کے کسی ذاتی مسئلہ پر استفسار کرلے یا اس کے کسی ذاتی مسئلہ پر استفسار کرلے تو وہ ان باتوں کا جواب نہیں دیتا بلکہ ناراضگی کا اظہار کرتا ہے یہ اجنبی مجھ سے کیوں ایسی باتیں پوچھتا ہے اس کا ان باتوں کے پوچھنے کا کیا مقصد ہے؟ مگر اگر وہی مسافر دوسرے سے اس کی منزل یا ”آخری سٹیشن جہاں اس نے اترنا ہے “ کے بارے میں پوچھے تو بلاجھجھک بول اٹھتا ہے کہ کراچی اور اگر پوچھنے والے کا آخری ٹھکانا بھی کراچی ہی تو دونوں میں دوستی ہوجاتی ہے۔
مگر یہ دنیا میں زمین کی گاڑی پر سوار مسافر جن میں سے سب کا آخری سٹیشن”میدان حشر“ ہے کا حال گاڑی کے مسافر سے بالکل الٹاہے۔یہاں وہ گاڑی کے مسافر کے برعکس تمام باتوں کے جواب خوشی سے دیتا ہے تذکرے کرتاہے لیکن اگر کوئی دوسرا مسافر اس سے آخری سٹیشن کے بارے میں پوچھ لے تو تیوری چڑھا کے کہتا ہے ”تو مرے میں کیوںمروں“۔حالانکہ حال یہ ہے کہ یہ مسافرآخرکار جا تو وہیں رہا ہے اور بے بسی کا عالم یہ ہے کہ سفر کا رخ نہیں بدل سکتا ہے۔گاڑی کو روک نہیں سکتا۔ حتیٰ کہ ڈبہ بھی بدل نہیں سکتا۔کوئی مسافر اگر دنیا میں یہ کہے کہ مجھے جوانی نہیں بچپن بہت پسند ہے تو نہ صرف یہ وہ اپنے سفر کو پیچھے نہیں لے جاسکتا ہے بلکہ وہ تو رفتار بھی آہستہ نہیںکرسکتا۔ہرحال میں آگے دھکیلا جارہا ہے۔ اس مسافر کا کمال یہ ہے کہ اسے سب کچھ یاد ہے مگر منزل آخری سٹیشن بھول گیا ہے اور اسی کو قرآن یاد دلا رہا ہے۔ قرآن اسے تو یقین کا نام دے رہا ہے۔دنیا میں کوئی خدا رسول قیامت‘کتاب اور فرشتوں کا تو منکر ہوسکتا ہے۔مگر موت پر ہر کسی کو یقین کامل ہے مگر اس نے اسے چھپا رکھا ہے تذکرہ نہیں کرتا دنیا کے معاملات کہیں خراب نہ ہوجائیں۔
دنیا میںاس ظالم کو فنا پر اتنا یقین ہے کہ جب سورج پورے جوبن پر بالکل سر کے اوپر ہو۔اپنی پوری شدت اور حدت کے ساتھ تویہ انسان اسے زوال کے وقت کا سورج کہتا ہے حالانکہ بظاہر اس وقت وہ عروج پر ہوتا ہے یہ بھولے زوال کے وقت کا اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ انہیں یقین ہے کہ عروج تو چند لمحوں کا ہوتا ہے اور اس کے بعد یہ زوال پذیرہوجائے گا۔ اپنے متعلق اس کا خیال بالکل مختلف ہے وہ سمجھتا ہے کہ میں بڑا ہو رہا ہوں سالگرہ منائی جارہی ہے خوشیاں منائی جارہی ہیں۔آج اٹھائیسویں سالگرہ ہے آج چالیسیویں ہے وغیرہ وغیرہ۔اسے یہ خیال نہیں کہ سفر جو طے ہورہا ہے وہ طے نہیں کم ہورہا ہے۔
جوانی میں عدم کے واسطے سامان کر غافل مسافر شب کو اٹھتے ہیں جو جانا دور ہوتا ہے۔دنیا کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کوئی پھل دار درخت جب پورے جوبن پر پہنچ جائے۔اس کے پھل پک جائیں تو یقینی بات ہوتی ہے کہ کوئی پھل ابھی ٹوٹ کر گرنے والا ہے۔ اسی طرح کوئی شخص یہ کہے کہ میں پورے جوبن پر پہنچ گیا ہوں۔ اللہ کا دیا ہوا مال بہت ہے میرے بچے بھی جوان ہیں ان کی اولادیں ہورہی ہیں۔ خوشیاںہیں۔بہاریں ہیں تو پھر نادان انسان اب انتظار کر کہ کوئی پھل ٹوٹ کر گرنے والا ہے۔
مجھے شادابی صحن چمن سے خوف آتا ہے یہی انداز تھے جب لٹ گئی تھی زندگی اپنی دنیا بھی کرکٹ کی طرح چند روز مزے دار کھیل ہے۔کھلاڑی کتنے مزے میں کھیل رہا ہوتا ہے۔تالیاں بج رہی ہیں۔خوشیاں منائی جارہی ہیں ادھر چھکا ادھر چوکیوں کی بارش۔بلے باز کو مبارکبادیں مل رہی ہیں مگر یکایک ایک گیند بلے اور ٹانگوں کے کہیں نیچے سے نکلتا ہوا وکٹوں کو چھو لیتا ہے ساری خوشیاں ختم ہوجاتی ہیں اور کھلاڑی گردن جھکائے ہوئے سنچری مکمل نہ ہوسکنے کے غم میں واپس پویلین چلا جاتا ہے۔ اب ہمیں فکر یہی کرنا ہوگی کہ کہیں یہ موت کا بال اچانک ہماری روح کو کہیں سے نہ ٹکرا جائے اور ہم اپنی سنچری مکمل نہ کرسکیں۔
دنیا کے معاملات میں تو انسان اتنا چالاک ہے کہ کرایہ کے مکان میں تو ایک پھل دار درخت نہیں لگاتا کہ پرایا مکان ہے محنت کا کیا فائدہ۔ مگر اپنی اس چندسالہ زندگی میں دولت اور اقتدار کے سارے خزانے حاصل کر لینا چاہتا ہے۔ قرآن فرماتا ہے کہ جب تم میں سے کسی پر موت آجاتی ہے تو اس کے رشتہ داروں کی نسبت اللہ تعالیٰ مرنے والے کے زیادہ قریب ہوتاہے۔اللہ انسان کو چیلنج کرتے ہیں کہ اگر تمہیں میرے روز جزا پر یقین نہیں تو تم سب طاقتور لوگ اسے روک لو ۔اسے مت جانے دو ۔ کیوں اسے موت کے منہ میںجانے دیتے ہو۔اسے اپےن سے جدا نہ ہونے دو۔ ماں باپ سرہانے کھڑے بین کر رہے ہوتے ہیں۔ جو ان بھائیوں کی جوڑیاں دائیں بائیں کھڑی ہوتی ہیں۔ طاقتور بہادر خاندان کے سینکڑوں سپوت پاﺅں کی طرف کھڑے ہیں مگر اسے لوٹا نہیں سکتے اور بلانے کا انداز اتنا سخت ہے کہ اگر جی ٹی روڈ پر یا کسی چوراہے پر بلوایا گیا ہے تو گھر اطلاع دینے کی مہلت بھی نہیں ملتی۔اللہ فرماتے ہیں کہ یہ اور بات ہے کہ ہم دنیا میں اپنے دربار کی طرف بڑے پیار سے بلاتے تھے کہ ”آﺅ نماز کی طرف‘ آﺅ فلاح کی طرف‘ مگر یہ تکبر کرنے والا کہتا تھا کہ میرے بچے کو کون پالے گا۔ میرا کاروبار کون سنبھالے گا۔ میرا سکول کون چلائے گا ۔ ہر دو گھنٹے کے بعد حاضری بڑی مشکل ہے۔اللہ معاف فرمائے گا کیونکہ اللہ کوبھی ہمارا علم ہے کہ میں بچوں کے لئے رزق کما رہا ہوں۔ اللہ کے بلانے کے انداز پر قربان جائیں۔ چھ مرتبہ اللہ اکبر اور آخر میں لاالہ الااللہ کہلوایا۔ تصور یہ دلوایا کہ اللہ بہت بڑا ہے اللہ کو بڑا جان لو اور صرف اسی کے آگے سر تسلیم خم کرو۔ ہم دنیا میں کسی کمپنی میں کام کرتے ہیں اور اس کا چیئرمین اگر ہمیں کام دے اور ہم اسے کر رہے ہوں تو دوسرے کسی افسر کا حکم نہیں مانتے کہ کمپنی کے مالک کا کام کر رہے ہیں ۔ گھر سے پیارا بیٹا بلانے آئے تو منع کرتے ہیں۔ بیوی کا فون بھی آئے تو بند کردیتے ہیںدوستوں کو بھی ٹال دیتے ہیں اگر وہی چیئرمین بلا بھیجے تو ساری فائلیں پھینک دیتے ہیں اور ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ادب سے اس کے دفتر چلے جاتے ہیں ۔اللہ نے بھی یہی تصور دلایا ہے کہ دنیا کے جس کارخانے میں تم رہتے ہو اس کارخانے کا بڑا بلا رہا ہے اب کسی عذر کی گنجائش نہیں ہے اور مزید یہ کہ جب قیامت کے روز تجلیات خداوندی کا پر تو پڑے گا تو حکم ہوگا کہ سب لوگ سجدے میں گرجاﺅ اس روز سب سجدے میں گرجائیں گے مگر کچھ لوگ سجدہ کرنا چاہنے کے باوجود سجدہ نہ کرپائیں گے۔قرآن کہتا ہے کہ جب دنیا میں صحیح سالم تھے تو ہمارے بلانے پر نہیں آتے تھے۔ قرآن ایک جگہ یہ بھی کہتا ہے ک اس روز تو صرف وہی لوگ سجدہ کرسکیں گے جو دنیا میں یہ تڑپ لیے اللہ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے مسجدوں میں آتے تھے کہ ایک دن اللہ تعالیٰ کی ملاقات اسی بہانے ہوجائے گی۔ یہ اللہ کی عظمت ہے کہ دنیا کی حقیقت کس پیار سے سمجھاتا ہے مگر ہم ہیں کہ محض ظاہر پر ہی محنت کیے جارہے ہیں۔ انسان کا جسم صرف سواری ہے اور اس کے اعمال سوار ہیں جب تک سوار اچھا نہ ہو سواری کی کوئی عزت نہیں کرتا۔ علامہ اقبال نے کہا کہ ‘
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری
عمل والے اور بے عمل رہتے تو ایک جہاں میں ہیں مگردونوں میںفرق ہے۔اعمال کے لئے ہمارے پاس اللہ کی دی ہوئی کتاب موجود ہے جس میں قیامت تک کے آنے والے انسانوں کے لئے رہنمائی موجود ہے اور اللہ تعالیٰ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے قرآن کو آسان کردیا تو ہے کوئی جو اس سے فائدہ اٹھائے۔
آیئے اپنے آپ سے عہد کریں کہ آج سے قرآن کا دامن تھام کر محنت کا آغاز کر یںگے۔فاصلہ تو تھوڑا سا ہے ‘بس کوشش یہ ہے کہ جب میدانِ حشر میں پہنچیں تو ہمارا رب اور اس کا محبوب ناراض نہ ہوں۔ وہ ہم سے خوش ہوں اورہم دعا کریں کہ مالک ہمیں توفیق دے کہ ہم ایسے اعمال کریں کہ جب تیرے حضور پہنچیں تو ہمیں ندامت نہ ہو اور دوسری طرف ہمیں یہ بھی چاہیے کہ اپنے ساتھیوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف بلائیں کہ ہمارے بھائی بھی اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ میں جانے سے بچ جائیں۔