Apr
07
|
Click here to View Printed Statement
عدالتی فیصلہ آنے کے بعد ہی سوات میں ایک لڑکی کو کوڑے مارے جانے کے واقعہ کے تمام پہلو سامنے آسکیںگے۔ وڈیو اصلی ہے یا جعلی‘ واقعہ کے محرکات حقیقی ہیں یا بہتان پر مبنی‘ کوڑے مارنے والے اصلی طالبان ہیں یا طالبان کے روپ میں دشمن ملک کے ایجنٹ ہیں۔ سزا طے کرنے اور اس پر عملدرآمد کرنے والے لوگ واقعتا اسلامی سزا اور جزا کی روح کو سمجھنے والے علماءہیں یا قبائلی سوچ کے حامل چند روایت پرست باریش لوگوں کا کوئی گروہ ہے ۔ اس طرح کے بے شمار سوالات کے جوابات عدالت کے ذریعے ہی مل سکیں گے۔ سوات اور فاٹا کے حالات ایسے ہیں کہ کسی بھی واقعہ کا فوری طور پر سچ اورجھوٹ ڈھونڈ لینا امر محال ہے۔ ہم صرف سوالات اٹھا سکتے ہیں۔
ٹی وی چینلز پر دکھائی جانے والی ویڈیو فلم قریب سے لی گئی ہے۔ ویڈیو بجھوانے والے کا مﺅقف ہے کہ اور لوگوںنے بھی اپنے موبائل فونز کے ذریعے اس واقعہ کی ویڈیوز بنائی تھیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ ”طالبان“ کی اجازت سے یہ ویڈیو بنا رہے تھے یا چھپ چھپا کر یہ کارنامہ سرانجام دے رہے تھے۔ اگر اجازت سے یہ کام ہورہا تھا تو پھر طالبان کو اگلے روز یہ ویڈیو جاری کردینی چاہیے تھی جیسا پہلے بہت سے واقعات میں ہوتا آیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ویڈیو خفیہ طور پر بنائی گئی ہو ۔ ویڈیو رساں شخص نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی جان کو خطرہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر یہ ویڈیو بنائی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ جس واقعہ کو طالبان نامی لوگ چھپانا چاہتے تھے اس کی ویڈیو دو تین لوگ بنا رہے ہوں اور ہجوم میں سے کسی کو پتہ ہی نہ چل سکے؟
ویڈیو کو بڑے اہتمام کے ساتھ بیس کے لگ بھگ چینلز کو ریلیز کیا گیا۔ تمام چینلز تین اپریل پورا دن یہ ویڈیو بار بار چلاتے رہے۔چینلز میں بیٹھے دانشوروں اور آزادی صحافت کے علمبرداروں کو اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داری کا لمحہ بھر بھی خیال نہیں آیا۔ کسی نے سوچا تک نہیں کہ گھروں میں بیٹھے معصوم ذہنوں پر اس ویڈیو کے کیسے کیسے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ایسی پرتشدد اور خوفناک تصویریں اور آوازیں تو امریکہ اور یورپ میں بھی رات کے پچھلے پہر ہی دکھائی جاتی ہیں لیکن ہمارے ”بریکنگ نیوزکلچر“ میں منہ زوریوں کا رواج عام ہوگیا ہے۔ صحافتی ایمانداری کا تقاضا تھا کہ اپنے اپنے نمائندوں کے ذریعے ویڈیو میں ظاہر کی گئی ”لوکیشن“ کا پتہ چلاتے‘ ویڈیو بجھوانے والے شخص کے پیچھے چھپے خفیہ ہاتھوں تک پہنچتے اور بہت ہی ضروری تھا تو ایک آدھ بار اسے ”آن ایئر“ کردیتے۔ناظرین اور سامعین کے ذہنوں کو عذاب مسلسل سے بچاتے۔ لیکن چینلز کے درمیان غیر صحتمندانہ مقابلہ بازی نے صحافتی اخلاقیات کا جنازہ ہی نکال دیا ہے۔ چینلزمیں کام کرنے والے اور فیصلے صادر کرنے والے اپنے آپ کو شائد اس ملک کا حصہ ہی نہیں سمجھتے۔ ان کا کام تو اپنی سکرین کو دلکش بنانا ہے!
پاکستان کے علماءاور مذہبی سکالرز کا بھی اللہ ہی حافظ ہے ۔ اگر فرض کیا یہ ایک حقیقی واقعہ ہے تو پھر ظاہر ہے کہ شرمناک ہے۔ اور اس کی بھرپور مذمت کرنی چاہیے۔ اسلامی سزاﺅں پر تو عوام الناس کوکوئی اعتراض نہیں ہوگا۔سعودی عرب میںیہ سزائیں رائج ہیں اور وہاں کے معاشرے میں مثالی امن ہے۔ لیکن کسی سترہ سالہ بچی چاہے گنہگار ہی کیوں نہ ہو کی اس طرح سرعام تذلیل پر تو شائد اسلامی ریاست کی قوت کے حرکت میں آجانے کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ علماءکا ایک طبقہ طالبان کی بلامشروط محبت میں گرفتار ہے۔ یہ جانے بغیر کہ طالبان کے اندر بھی جہلاءکی کمی نہیں ہے اور دوسرا طبقہ طالبان کے مخالف ہے یہ جانے بغیر کہ ہر پٹھان‘یاہر داڑھی والا طالبان نہیں ہوتا۔ پنجاب میں ایسے بے شمار واقعات ہوتے ہیں۔ کبھی ننگی عورتوں کو چوراہوں میں گھسیٹا جاتا ہے ‘ کبھی سندھ اور بلوچستان میں لڑکیوں کو ”کاروکاری“ ونی اور جرگہ کے ذریعے انسانیت سوز سزائیں دی جاتی ہیں۔ کیا اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ سب کچھ ”اسلام اورپاکستان کے کسی قانون کے تحت ہوتا ہے؟
انسانی حقوق کی تنظیموں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے۔ انہیں اپنی خبر چھپوانے اور میڈیا میں ”اِن“ ہونے کا موقعہ مل گیا ہے۔ وہ اس ”ویڈیو“ کی بنیاد پر اسلام کے نظامِ عدل کو ہی آڑے ہاتھوں لے رہی ہیں۔اسی روز ایک امریکی انتہا پسند دہشتگرد نے دن دیہاڑے بار ہ بے گناہ شہریوں کو قتل کردیا لیکن کسی نے امریکیوں کو وحشی قرار نہیں دیا۔
دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی
لوگوں نے گھر کے صحن میں رستے بنا لیے
امریکیوں اور بھارتیوں کی تو گویا لاٹری نکل آئی ہے۔”طالبان اسلام آباد تک پہنچ چکے ہیں“۔ اگر تو طالبان باعمل مسلمان ہونے کا نام ہے اور کسی غاصب اور قابض غیر ملکی طاقت کے خلاف جہاد کرنے والوں کو طالبان کہا جاتا ہے تو پھر چند سو امریکی پٹھوﺅں کے علاوہ سترہ کروڑ پاکستانی سب کے سب طالبان ہیں۔ اور اگر طالبان نام ہے جاہل‘ قبائلی روایات کے اسیر اور پاکستان دشمن کارروائیوں کو جائز قراردینے والے پیشہ ور جنگجوﺅں کا تو پھر پاکستان میں ایسے طالبان کاکوئی بھی حامی نہیں ہے۔
کوڑے کھانے والی لڑکی تھی یالڑکا‘کوڑے سوات میں مارے گئے یا افغانستان میںموجود بھارتی سفارتخانے کی چھت پر یہ ڈرامہ سٹیج کیا گیا ۔”بدکار“ لڑکی اور لڑکا کس کے کہنے پر ”بدکاری“ کرتے رہے۔”عدالت“ لگانے والے کون تھے۔ ہمیں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے اور سترہ کروڑ انسانوں کے اس ملک میں کسی ایک واقعہ سے پورے پاکستان اور اسلام کے خلاف بے رحم ردعمل اور خوفناک پروپیگنڈا کا راستہ ترک کردینا چاہیے۔