May
02
|
اسے خوشخبری ہی کہا جائے کہ خطے کے تین ہمسایہ مسلمان ممالک ‘ چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے باہمی رابطے مضبوط کر رہے ہیں ۔ گزشتہ دنوں افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پاکستانی وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی‘ ایرانی وزیر خارجہ جناب منوچہر متقی اور افغانستان کے وزیر خارجہ جناب رنگین داﺅفر نے آپس میںملاقات کی‘ تینوں ممالک کو درپیش مسائل پر بحث کی اور مشترکہ پریس کانفرنس میں اس عزم کا اظہار کیا کہ مشترکہ مفادات کے تحفط کے لئے باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے گا اور دہشتگردی اور منشیات کی سمگلنگ کے خاتمے کے لئے مشترہ جدوجہد کی جائے گی۔گو کہ اس اجلاس میں افغانستان کے اندر امریکی جارحیت یانیٹو افواج کی واپسی کے حوالے سے شائد کوئی بات نہ ہوئی ہو لیکن پاکستان کے بار بار کے اصرار کے سبب اور افغانستان میں اٹھنے والے اخراجات سے گھبرا کر شائد امریکہ نے مجبوراً ایران کے کردار کو تسلیم کرلیا ہے…. اب ایران پر حملہ یا مخاصمت کی باتین قصہ پارینہ بنتی جارہی ہیں۔ اس اجلاس سے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ شائد پاکستان اور ایران کے تعاون سے امریکہ افغانستان کے اندرکوئی ایسا سیٹ اپ قائم کرنا چاہتا ہے جسے طالبان بھی تسلیم کر لیں اور بلگرام اور قندھار میں اس کی قائم ہونے والی چھاﺅنیاں بھی برقرار رہ سکیں۔”باعزت واپسی“ اب امریکہ کی شدید خواہش بن گئی ہے ۔ پاکستان کے بارے میں منفی واویلا کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی ایجنسیاں موڈریٹ طالبان کو تلاش کریں اور آمادہ کریں کہ وہ افغانستان میں کوئی ایسی امریکہ نواز حکومت تسلیم کریں جس کو عوامی تائید میسر آجائے اور”کیسپئین“ تک امریکی آئل کمپنیوں کی رسائی پرامن اور آسان ہوجائے۔
افغانستان کے موجودہ صدر جناب حامد کرزئی پہلے ہی درپردہ طور پر اور بعض اوقات امریکی خواہش پر ”موڈریٹ“ طالبان سے تجدید تعلقات کرتے رہتے ہیں۔ امریکہ نے افغانستان کے اندر اپنی فوجوں کی تعداد میں اضافہ تو کردیا ہے لیکن مخدوش مالی حالات کے سبب شائد ان تازہ دم سترہ ہزار فوجیوں کے بدلے تھکے ماندے پچاس ہزار فوجیوں کو اگلے سال واپس بھی بلا لیا جائے۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ اتحادی اور امریکی فوجیں افغانستان کے اندر محفوظ مقامات تک محدود رہیں اور لڑنے اور مرنے کے لئے ایران پاکستان کے مشترکہ دستے مغربی افغانستان میں کارروائی کے لئے تیار کئے جائیں۔ کابل میں ایرانی وزیر خارجہ کی موجودگی کسی بڑی تبدیلی کی خبر دے رہی ہے۔
ایران اورطالبان کا معاملہ بہت پیچیدہ ہے ۔ طالبان حکومت کے خاتمے میں ایرانی حکومت پیش پیش تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ طالبان میں غالب اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو شیعہ سنی کے روایتی جھگڑے سے خود کو الگ نہیں کرسکی۔ مزار شریف میں اہل تشیع کے مبینہ قتل عام کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف امریکہ نے متعدد مرتبہ ایران پر الزام لگایا تھا کہ ایران نے جناب گلبدین حکمت یار سمیت بعض طالبان رہنماﺅںکو اپنے ہاں پناہ دی تھی اور ایران ہی طالبان کو اسلحہ فراہم کرتا ہے ۔ سچائی کیا ہے اس بارے ٹھوس حقائق کے منظر عام پر آنے کا انتظار ہے۔ لیکن اگر ایسا ہوجائے کہ طالبان کی موجودہ قیادت ایرانی حکومت کا اعتماد حاصل کرلے اور کسی طرح طالبان کے خلاف پائے جانے والے جذبات کی شدت میں معقولیت آجائے تو پھر اس خطے میں دیرپا امن کے لئے کچھ کام ہوسکتا ہے۔
پاکستان‘ ایران اور افغانستان کے لئے آج سب سے بڑا چیلنج افغانستان میں موجود نیٹو اور امریکی افواج کی موجودگی ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ جب تک اس ”تکون“ کے اندر غیر ملکی فوجیں موجود رہیں گی پاکستان ‘ایران اور افغانستان کے اندر کبھی امن نہیں ہوسکے گا۔ ایران کو بھی بھارت کی قربت سے نکل کر پاکستان کا غیر مشروط طور پر ساتھ دینا چاہیے۔ کیونکہ بھارت اور امریکہ نے اپنے تعلقات کو خطے میں دھونس جمانے کے لئے مختص کر لیا ہے۔تین مسلمان ملکوں کا آپس میں سہ فریقی لائحہ عمل بنانے سے اس خطے کے مسلمان عوام کو ایک گونہ خوشی تو ضرور ملی ہے لیکن اسے باقاعدہ ”اسلامی بلاک “ کی صورت دینے میں ابھی بہت وقت باقی ہے۔ مئی کے پہلے ہفتے میں جناب حامد کرزئی پاکستان تشریف لارہے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ پاکستان آنے سے قبل پاکستانی سرحد پر واقع بھارتی کونسل خانوں کے بارے میں کوئی واضح مﺅقف اختیار کریں۔ ان کی تعداد اور استعداد کو کم کرنے کا حکم صادر فرمائیں۔آئندہ کا اجلاس تہران میں رکھا گیا ہے۔ اس اجلاس سے پہلے عوامی سطح پر تینوں ممالک کے وفود کے تبادلے ضروری ہیں۔ اگر یہ اجلاس ہونے سے پہلے پاک ایران گیس پائپ لائن کا افتتاح ہوسکے تو پھر اس ”تکون“ کو عوامی تائید بھی حاصل ہوسکے گی۔