Jun
20
|
Click here to View Printed Statement
یہ نہیں کہ اس ملک اور معاشرے میں اچھائیاں نہیں رہیں بلکہ اصل المیہ ےہ ہے کہ اچھائیاں اور بھلائیاں ہمارے نزدیک اب خبر کا درجہ نہیں پاتیں۔ اگر ہم تھوڑا سا وقت نکالیں اور اپنے شہر اور محلے پر نگاہ دوڑائیں تو ایسے مردانِ صدق وصفادکھائی دیں گے جو بغیر کِسی نام ونمودکے انسانی خدمت میں جُتے ہوئے ہیں۔ قومی سطح پر بھی ایک نہیں سینکڑوں بلکہ ہزاروں ایسے رجال عظیم ہیں جوحسب ونسب ذات ‘اور علاقے ‘ زبان اور مکان کی تفریق رکھے بغیرخدمت خلق کے صالح عمل میں مصروف رہتے ہیں۔ افسوس کہ ہمارے قلم اِن بے لوث ہستیوں کی جائز تعریف میں بھی متحرک نہ ہوئے۔ ہماری زبانوں پر تخریب کاریوں کے تذکرے تو جاری رہتے ہیں لیکن اِن معماروں اور مسیحاﺅں کو ہم نے کبھی ماڈل پاکستانی کے طور پر پیش نہیں کیا۔
میرے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر جہلم روڈ پر الشفاءٹرسٹ آئی ہسپتال ہے۔ ےہاں پر ہر روز آٹھ نو سو کے قریب مفلوک الحال لوگ آتے ہیں۔ کسی کا لباس میلا ہے کسی کا دامن تارتار ۔جیب پیسوں سے خالی اور آنکھیں نُور سے محروم۔ ایک دن میں چہل قدمی کرتے اِن کے پاس پہنچ گیا۔
”باباجی! کیا کرنے آئے ہیں، کہاں سے آئے ہیں“۔ لاٹھی کے سہارے چلنے والے تہبند باندھے ایک پیرانہ سال شخص سے پوچھا”نظر بنوانی ایں بھکّر توں آےاں“ اُس نے میری آواز پر متوجہ ہو کر مجھے دیکھنے کی کو شش کرتے ہوئے جواب دےا۔
”پیسے لےکر آئے ہو“ میں نے تحقیقاََ پوچھا اس پر بوڑھے کا جواب تھا کہ الشفاءوالوں نے بھکّر میں کوئی آئی کیمپ لگاےاتھا۔ معمولی امراض والے مریضوں کو وہیں پر دوائی دے دی اور موتیے کا شکار لوگوں کو اپنی بس میں بٹھا کر ےہاں لے آئے ہیں، اب مفت آپریشن بھی ہوگا اور کھانا بھی دیں گے اور بعد از آپریشن اپنی بس میں بٹھا کر واپس بھکّر چھوڑکر بھی آئیں گے۔
میں نے مزید تحقیق کی غرض سے ”او پی ڈی“ کا رخ کیا۔ وہاں ایک بڑے سے ہال میں عورتیں، بچے اور بوڑھے آرام دہ کرسیوں پر ایئرکنڈیشنڈ ماحول میں بیٹھے اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔
”یہاں ان کی رجسٹریشن ہوگی، یہ سب مفت علاج والے ہیں۔ صبح سے اب تک ساڑھے پانچ سو مریض رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔ پہلے گرمیوں میں تعداد کم ہوتی تھی۔ اب اضافہ ہورہا ہے“ کاونٹر پر مصروف کار خوش لباس نرس نے ایک ہی سانس میں تفصیلات بتائیں اور پھر کارڈز بنانے میںمصروف ہو گئی۔
میں نے وارڈز کا چکر لگانے کا فیصلہ کیا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان کے کسی رفاعی ہسپتال میں اسقدر صفائی اور نظم و ضبط ہو سکتا ہے۔ چیخ و پکار، نہ پیشہ ورانہ بد تمیزیاں۔ پُر سکون ماحول میں امیراور غریب سب اپنے اپنے بستروں پر لیٹے ہوئے ہیں۔ مجھے گمان گذرا کہ شائد میں کسی یورپی ملک کے مہنگے ترین ہسپتال میں داخل ہو گیا ہوں۔ عطیہ کرنے والے لوگوں کے نام کی تختیاں لگی ہوئی ہیںلیکن کوئی وی آئی پی روم دکھائی نہ دیا۔
”آپ یہاں سٹوڈنٹ ہیں“۔ دورسے آتے ہوئے سفید کوٹ پہنے چند نوجوانوں کی طرف بڑھا اور اُن سے پوچھا۔
”ہاں۔ انسٹیٹیوٹ آف آفتھالمالوجی میں پڑھتے ہیں۔ چار سال کا کورس ہے۔ یہاں ڈگری کلاسز بھی ہوتی ہیں۔“ تفصیلات پوچھیں تو پتا چلا کہ اب تک چھ سو کے لگ بھگ پیرامیڈکس تیار ہو چکے ہیں اور ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ڈاکٹرز بھی بن چکے ہیں۔ ہسپتال کے اندر باقاعدہ فارمیسی ہے یہاںمارکیٹ سے سستی اور معیاری ادویات تیار ہوتی ہیں ۔ الشفاءٹرسٹ نے سکھر اور کوہاٹ میں بھی ایسے ہی عالمی معیار کے ہسپتال بنائے ہیں اور مظفر آباد میںآئندہ سال آئی ہسپتال کا کام شروع کر دے گا۔ یہ بھی پتا چلا ہے کہ یہ تینوں ہسپتال ہر سال پانچ لاکھ مریضوں کا مفت علاج کرتے ہیں اور اس سارے پراجیکٹ کے روح رواں صوبہ سند ھ کے سابق گورنر جنرل (ر)جہانداد خان کی شخصیت ہے لیکن ہسپتال کے گورننگ بورڈ میں جہانداد خان کا دور یا نزدیک کاکوئی عزیز شامل نہیں‘نہ ہی ہسپتال کے کسی گیٹ یا وارڈ پر جہاندادکے نام کی کوئی تختی لگی ہوئی ہے۔جہانداد صاحب سے ملنے کی خواہش ابھری لیکن رخ اٹک ہاسپٹل لمیٹڈ کی طرف مڑگیا کہ ایک چراغ یہاں بھی جگمگاتا ہے۔
اٹک ہاسپٹل لمیٹڈ الشفاءٹرسٹ جیسے لیول کافلاحی ادارہ تو نہیں لیکن یہاں آکر یہ اطمینان ہوا کہ صفائی کا انتہائی اعلیٰ انتظام موجود ہے۔ ہسپتالوں میں آدھی بیماری تو صفائی سے ہی دور ہو جاتی ہے اور باقی چالیس فیصد بیماری ڈاکٹروں اور نرسوں کے اخلاق اور رویے سے ختم ہو سکتی ہے۔ دوا دارو تو ہر جگہ ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ یہاں کے سی ایم او ‘ڈاکٹر اے کے نیازی سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ غیر منافع بخش ادارہ ہے۔اٹک سہارا فاﺅنڈیشن کا ماتحت یہ ادارہ اے آر ایل ملازمین اور اہل علاقہ کی فلاح کے لئے قائم کیاگیا ہے۔
ڈاکٹر نیازی کا کہنا تھا کہ جو لوگ اس مقدس پیشے کو کاروبار کی طرح چلائیں انہیں سخت سزا دی جائے۔ میرے پاس اگر اختیار ہو تو میںلیب ٹیسٹ پر کمیشن لینے والوں‘بے وجہ من پسند کمپنیوں کی مہنگی ادویات کانسخہ لکھنے والوں اور محض مال بٹورنے کے لئے انسانی جسم کی چیرپھاڑ کرنے والوں کو سخت ترین سزا دوں۔
یہاں آکر یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈاکٹر واقعی مسیحا ہوتے ہیں ۔اس ہسپتال میں نہ تو غیر ضروری ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں۔ نہ ہی مفت علاج والوں سے بد تمیزی سے پیش آیا جاتا ہے۔ ایک کثیر تعداد مفت علاج والوںکی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر نیازی کسی بھی مریض کو ہونے والی کسی بھی تکلیف پر انتہائی سختی سے نوٹس لیتے ہیں ۔ مریضوں سے پوچھ گچھ کی تو ڈاکٹر صاحب کی باتوں کا یقین ہو گیا ۔ نرسوں کے رویوں کے بارے میں جانچنا چاہا۔ ایک مریضہ نے بتایا کہ مسز شمیم عارف یہاں کی ہیڈنرس ہیں اور فرشتہ سیرت ہیں ۔ڈیوٹی اوقات کے بعد بھی وہ اکثر ہسپتال میں مریضوں کے درمیان موجود ہوتی ہیں۔مسز شمیم عارف اوران کی رفقاءکار اعلیٰ اخلاق اور پیشہ وارانہ مہارت کے سبب اس ہسپتال کی نیک نامی میں اضافہ کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے جذبہ خدمت ِ انسانی کو مزید بڑھائے! فلاحی ہسپتال قائم کرنا،اسے چلانا اور خودکفالت کی منزل سے ہمکنار کرنا بہت کٹھن کام ہے ۔اٹک ہاسپٹل لمیٹڈ جیسے شفاخانوں کا وجود ایک غنیمت ہے۔ ایسے اداروں کو دیکھ کر امید بندھتی ہے۔لاکھ ظلمت شب سہی لیکن عظیم ہیں وہ لوگ جو اپنے حصے کی شمع تو جلاتے جا رہے ہیں۔ بقول شاعر
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا ۔ اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے