Aug
15
|
Click here to View Printed Statment
گزشتہ ماہ مقامی یونیورسٹی میں مختلف اداروں کے اشتراک سے سکول کے بچے بچیوں کے لئے میتھمیٹکس کے حوالے سے سمر کیمپ لگایا گیا۔ کیمپ کے آخری روز ملنے والے سرٹیفکیٹ اور سکول بیگ دکھاتے ہوئے ہماری بھتیجی نے پرجوش لہجے میں بتایا‘”انکل اب میں چالان بھی کرسکتی ہوں“اور اس کے ساتھ ہی اس نے ایک خوبصورت کارڈ دکھایا جس پر ”وارننگ کارڈ“ کے الفاظ درج تھے۔ یہ کارڈ اسلام آباد ٹریفک پولیس کی طرف سے جاری کیا گیا تھا۔ بھتیجی نے بتایا کہ دوران کیمپ سٹوڈنٹس کو ٹریفک پولیس آفس کا دو مرتبہ وزٹ کرایا گیا۔ وہاں مختلف افسران نے ٹریفک رولز پر بریفنگ دی اور پھر شرکاءسے سوالات پوچھے۔ ایک سمارٹ سے انکل جو کہ سب سے بڑے آفیسر تھے انہوں نے ٹریفک رولز پر لیکچر دیا اور لنچ باکس بھی دیئے۔
”آپ کو ٹریفک رولز کے بارے میں کیا باتیں معلوم ہیں “ میں نے صرف چیک کرنے کے لئے پوچھا۔ ”سگنل ریڈ ہوتے ہی گاڑی روک دینی چاہیے۔ سگنل ییلو (زرد) ہو تو آگے بڑھنے کی تیاری کر لینی چاہیے اور گرین سگنل پر چل پڑنا چاہیے اور انکل سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون نہیں سننا چاہیے۔ اورحفاظتی بیلٹ باندھ کر رکھنا چاہیے‘چاہے سپیڈ بیس کلو میٹر فی گھنٹہ ہی کیوںنہ ہو“۔ پھر بھتیجی نے جھجکتے ہوئے کہا ”انکل آپ بھی ڈرائیونگ کے دوران فون نہ سنا کریں۔ خدانخواستہ حادثہ ہوسکتا ہے “۔یہ شائد اس کارڈ کی موجودگی کے سبب پہلی وارننگ تھی جو مجھے ہی دی جارہی تھی۔ ایس ایس پی ٹریفک جناب ڈاکٹر اعظم تیموری کی خوبی یہ ہے کہ وہ جرمانوں کی بجائے تعلیم وتربیت پر زیادہ زور دیتے ہیں۔راقم کو ڈاکٹر اعظم تیموری سے ان کے آفس ملنے اورٹریفک کی صورتحال پر گھنٹہ بھر گفتگو کرنے کا موقعہ ملا ۔ چیدہ چیدہ کالم نویسوں کو ٹریفک آفس میں بلا کر تیموری صاحب شہریوں کے اندر ٹریفک قوانین کے احترام کے سلسلے میں شعور بیدار کرنے کی اپیل کر رہے تھے۔ کہتے ہیں کسی قوم کے اجتماعی مزاج کا اندازہ لگانا ہو تو اس کے ٹریفک نظام کو دیکھ لیں‘سب کچھ عیاں ہوجائے گا۔ پاکستانی قوم کا اجتماعی مزاج غیروں اور اپنوں کی نگاہ میںشائد قابل تعریف نہ ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ جہاں بھی اور جس کسی ادارے میں اہل لوگ ہوں اور اچھا سسٹم میسرہو وہیں یہ قوم معجزے کردکھاتی ہے۔ پانچ برس قبل کوئی شخص یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ اسلام آباد جیسے شہرمیں ٹریفک قوانین کی پابندی بھی ہوسکتی ہے۔ یہ سمارٹ سے اعظم تیموری ہی تھے جنہوں نے اس چیلنج کو قبول کیا اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کے ڈرائیوروں کی ہڑتالوں اور مظاہروں سے لےکر بڑے بلکہ بہت ہی بڑے بڑے لوگوں کی گالیوں تک کو برداشت کیا۔ٹرانسفر بھی کردیئے گئے لیکن اپنے مشن پر قائم رہے اور اپنے ساتھ ایسے آفیسرز اور سپاہی لئے جنہوں نے رولز اور قوانین کو ہی اپنا حاکم جانا اور روز افزوں آبادی والے اس شہر کی ٹریفک کو نہ صرف رواں دواں رکھا بلکہ ہر روز بہتری اور سبک رفتاری کے طریقے اپنائے۔ کتنے ہی واقعات میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔ بڑے بڑے وزیروں کا گاڑیوں کو ٹریفک سگنل توڑنے پر چالان کیا گیا۔ گزشتہ دنوں خود ایس ایس پی ٹریفک کی گاڑی کو اہلکاروں نے روک لیا اور چالان کئے بغیر نہیں چھوڑا۔آج شائد ہی کوئی ایسا ڈرائیور ہو جو اسلام آباد شہرمیں داخل ہوتے ہی حفاظتی بیلٹ نہ باندھتا ہو۔آپ کسی چوک میں کھڑے ہوجائیں۔آپ کو اپنی اپنی قطار میں روانی کے ساتھ چلتی سینکڑوں‘ہزاروں گاڑیاں گزرتے دکھائی دیں گی۔یوں محسوس ہوگا جسے آپ کسی یورپی ملک یا امریکہ کے اندر داخل ہوگئے ہیں۔یہی پاکستانی عوام جو آپ کے نزدیک شائد غیر مہذب ہو‘اسلام آباد میں داخل ہوتے ہی مہذب ترین قوم دکھائی دیتی ہے۔ مہذب بنانے اور تہذیب سکھانے میں اسلام آباد ٹریفک پولیس کاکلیدی کردار ہے اور نامساعد حالات کے باوجود جس تندہی کیساتھ یہ پولیس لوگوں کی تعلیم وتربیت کر رہی ہے ‘اس پر پوری قوم کی طرف سے سیلوٹ کی حق دار ہے۔ بَک بَک نہ چخ چخ۔جھگڑا نہ تکرار۔ ایسا اخلاق کہ ٹریفک قانون توڑتے ہوئے شرم سی آنے لگتی ہے۔”سوری! غلطی ہوگئی۔آئندہ نہیں کروں گا“۔اثرورسوخ رکھنے والے بڑے بڑے اکڑ خانوں کو بھی ٹریفک پولیس کے سامنے شرمسار ہوتے دیکھا ہے۔ شہریوں اور ٹریفک پولیس کے درمیان یہ ”فرینڈلی ماحول“آپ کو جاپان اور لندن میں بھی دکھائی نہیں دے گا۔کہاں یہ تیسری دنیا کا مقروض ملک ! میں دیر تک جناب تیموری کی گفتگو سنتا رہا۔ سڑکوں کی حالتِ زار پر بھی بات ہوئی۔ گاڑیوں کی تعداد میں غیر متوقع اضافہ کا بھی تذکرہ ہوا۔ بغیر سگنل کے ٹریفک رواں دواں رکھنے کا کارنامہ بھی زیر بحث آیا۔فارغ ہونے لگے تو تیموری صاحب کو تجویز دی کہ ایک مہربانی اور کردیں۔ڈرائیونگ لائسنس کے لئے آنے والے شہری پورا پورا دن قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں اور ایک ڈرائیونگ لائسنس لینے کے لئے مہینہ ڈیڑھ مہینہ لگ جاتا ہے اگر شہر میں تین چار ”ڈرائیونگ لائسنس سنٹر“بنا دیئے جائیں تو شہریوں کی اس مشکل میں کمی آسکتی ہے۔تیموری صاحب مسکرائے‘ان کی مسکراہٹ کے پیچھے ان کے وسائل کی محدودیت صاف چھلک رہی تھی۔ باہر آئے تو گیٹ پر ”گرین سگنل“ کا نشان ابھرا۔ سوچا کہ اس ملک میں نظم و ضبط کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے گرین سگنل“ بہت ہیں‘افسوس کہ ہم اپنی باری کا انتظار کرنے کے عادی نہیں رہے اور سگنل توڑنے کو ہی بڑائی تصور کرتے ہیں۔