Sep
01
|
Click here to View Printed Statment
وفاقی دارلحکومت کی بعض شاہراہوں سے رکاوٹیں ہٹا لی گئی ہیں اور آئندہ چند روز تک مزید ”نو گو ایریاز“ بھی ختم ہونے کا امکان ہے۔ تین چار ماہ قبل پاکستان کے شہروں کے اندر جس تواتر کے ساتھ خودکش حملے ہونا شروع ہوئے تھے ، اس سے خوف اور وسوسوں نے ہماری اجتماعی زندگی کو جکڑ لیا تھا۔ امن کی فاختائیں ہمارے منڈیروں سے اُڑ کر ہمسایہ ممالک کا رُخ کر چکی تھیں۔ سکون کی نیندیں حرام ہو چکی تھیں۔ زندگی کیا تھی، بس ایک بے یقین سا سایہ تھا جو کسی چوک چوراہے میں خون آلود ہوتا دکھائی دیتا تھا۔ عوام تو عوام ،طبقہ اشرافیہ بھی اپنے بچاو¿ کی تدبیریںڈھونڈتا دکھائی دیتا تھا۔ جتنے اُونچے سر تھے، سب اُڑائے جانے کے ڈر سے نیچے ہو چکے تھے۔ اسلام آباد کے پوش سیکٹرز میں قائم پولیس کے اعلیٰ ترین افسران نے اپنی رہائش گاہوں کی طرف آنے والے راستے سنگ و خار سے بند کر دیئے تھے اور عوام کی حفاظت کے نام پر مراعات اور تنخواہیں بٹورنے والے عملاً قلعہ بند ہو کر کسی حملہ آور کے منتظر بیٹھے سانسیں گنتے تھے۔ سوائے مذمت کے حکمران طبقہ عوام کو کچھ دینے کے قابل نہ تھا اور اسلام آباد چند روز میں فتح ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔
چار پانچ ماہ قبل کے اخبارات اُٹھا کر دیکھیے ،اُن کی چیختی و چنگاڑتی سرخیاں ملاحظہ کیجئے۔ آپ کو ہر طرف اپنے آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں ”طالبان“ ، ”دہشت گرد“ اور ”خود کش بمبار“ دکھائی دیں گے۔ کوہاٹ میں، پشاور کے قصہ خوانی بازار میں، لاہور کے مال روڈ پر ، راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے سامنے والی سڑک پر، کراچی کے بازاروں میں ، کوئٹہ کے شہر میں …..کون سی جگہ تھی جو ”طالبان“ کی دست بُرد سے بچ گئی تھی، کون سا طاقتور شخص تھا ،جسے اپنی طاقت پر کوئی گھمنڈ رہ گیا تھا؟
آخر کار پاک فوج کو اس معرکہ بقاءمیں کودنا پڑا۔ یہ آپریشن نہیں، ری ایکشن نہیں،ایک مکمل جنگ تھی۔ ایسی جنگ جس میں دشمن کا نام تو ہے لیکن مقام نہیں ہے۔ اپنے اور بیگانے میں تفریق کا اہتمام نہیں ہے۔ پچاس لاکھ لوگوں کو ”اجتماعی زیاں“ سے بچا کر کیمپوں تک کون لایا؟ یہ فوج ہی تھی جس نے ہجرت کے عذاب کو مہمان نوازی کے ثواب میں تبدیل کیا۔ اپنے حصے کا راشن ان بے گھر اور دربدر لوگوں کو دے کر اُن کے جسم اور روح کے رشتوں کو برقرار رکھا۔ حیرت ہوتی ہے مالاکنڈ اور سوات کے لاکھوں لوگ کیمپوں میں آباد ہوئے، لیکن کوئی بڑا جرم نہیں ہوا۔ فوج نے اِن پاکستانیوں کی اس طرح حفاظت کی جس طرح ماں اپنے بچوں کو محفوظ رکھتی ہے۔ آپریشن کے علاقوں میں ”چوٹ لگاو¿ اور بھاگو“کے ماہر ”طالبان“ جان بوجھ کر شہری علاقوں سے اچانک برآمد ہوتے تھے اور سیکیورٹی فورسز پر راکٹ داغتے تھے۔ فوج کے آفیسرز شہید ہوئے، جوانوں نے قربانیاں دیں۔ لیکن اس اشتعال انگیزیوں کا جواب کبھی بھی مشتعل ہو کر نہیں دیا۔ خود زخمی ہوتے رہے، کمانڈر کے سامنے اُس کے جواں دم توڑتے رہے۔ اختیار تھا، اسلحہ تھا ….. بستی کی بستی ویران کی جاسکتی تھی۔ لیکن سلام ہے عسکری قیادت پر جس نے فوج کے ڈرائیور تک یہ احساس جاگزین کیا کہ سوات اور مالاکنڈ کے عام لوگ سب سے پکے پاکستانی ہیں، چند بھٹکے ہوئے، بھڑکائے ہوئے شر پسندوں کی غلطی کی سزا کسی دوسرے پاکستانی کو کیوں ملے؟
دنیا کی تاریخ میں کسی ایک ایسے عسکری آپریشن کی مثال دیجیے جہاں شدت پسندوں نے چہار سو اپناجال بچھا رکھا ہو اور کوئی فوج اُترے اور خوفناک دلدل سے اپنے ٹائم فریم اور پلان کے مطابق کامیابی سے باہر آجائے!
میں دنیا بھر کی افواج کو چیلنج کرتا ہوں۔ وہ اپنی اپنی عسکری کارروائیوں کا ریکارڈ سامنے لائیں اور میری بہادر فوج کے دو ماہ کے آپریشن راہِ راست سے موازنہ کرلیں ….. لاو¿ ترازو تول کے دیکھو ، کس کا پلہ بھاری ہے؟
غیروں نے افواج ِ پاکستان کی صلاحیتوں کا ادراک کیا، چیف آف آرمی سٹاف کی پیشہ ورانہ کارکردگی کا اعتراف کیا۔ کوئی اور ملک ہوتا تو ایسی فوج کے حق میں ملک گیر استقبالیہ جلوس نکالے جاتے اور بہادر فوجیوں کی ”شہادت کہانیاں“ زبانِ زدِ عام ہوتیں۔ لیکن پاکستانی سیاستدان اس ملک کے لیے دی گئی افواجِ پاکستان کی قربانیوں کو نمایاں کرنا نہیں چاہتا کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ جو لوگ وطن کے لیے جان نچھاور کرتے ہیں، جو لوگ زلزلوں اور سیلابوںمیں ڈوبتے ہم وطنوں کو بچاتے ہیں، جو لوگ ”طالبان“ نما دہشت گردوں سے عوام کو نجات دلاتے ہیں وہی اچھی حکمرانی قائم کرنے کے بھی اہل ہوتے ہیں۔ میرے وطن کی کرپٹ سیاست اہلیّتوںکی متحمل ہو ہی نہیں سکتی!