Oct
07
|
Click here to View Printed Statment
اس میں اب کیا شک رہ گیا ہے کہ پاکستانی سیاست کو سرجری کی ضرورت ہے۔ وطن کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے اقتدار کے کئی ادوار گزارے ہیں۔ تخت و تاج سے محروم بھی ہوئے اور سر یرآرائے مَسند بھی دیکھے گئے۔ دونوں پارٹیوں نے ایوانوں میں جا کر بھی عوام کو مایوس کیا اور پس دیوار زندان ہو کر بھی ڈیلیں ہی کی ہیں۔ دونوں پارٹیوں کے منشور میں عوام محض خانہ پری کے لئے دکھائی دیتی ہیں۔ ملک کے بنیادی مسائل سے لے کر عوامی اشوزتک بہتری کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ لوڈشیڈنگ اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں نے عام پاکستانی کو حالات سے بددل کررکھا ہے اور یہ بَددلی اس ملک سے لاتعلقی پر منتج ہورہی ہے۔ پنجاب میں میاں محمد شہبازشریف نے پورا رمضان روزہ داروں کو قطاروں میں کھڑے رکھا۔ آج آٹا پھر سے بھاری قیمت پر فروخت ہورہاہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے پاس بھی عوامی مسائل کا کوئی دیرپا حل موجود نہیں اور آٹا بانٹنے کی رسم بھی محض سیاسی پروپیگنڈے کے طور پر اپنائی گئی تھی۔ راقم نے وزیراعلیٰ کی ان ادھوری کوششوں کی تعریف کی تھی۔ غر ض یہ تھی کہ پنجاب حکومت شائداپنی کوششوں کو سارا سال جاری رکھے گی اور قطاروں کی بجائے لوگوں کو دکانوں سے سستا آٹا دستیاب ہوجائے گا۔ لیکن چونکہ (ن) لیگ کے اندر غریبوں کی نمائندگی آٹے میںنمک برابر ہے اس لئے شہبازشریف جیسے اچھے منتظم کے بھی ہاتھ پاﺅں باندھ دیئے گئے ہیں اور پارٹی کے اندر چھائے ہوئے بڑے بڑے جاگیردار‘ سرمایہ دار‘ذخیرہ اندوز اور مل مالکان(ن) لیگ کو عوامی پارٹی بننے ہی نہیں دیتے۔ اگر میاں محمد نوازشریف کے رائے ونڈ فارم کا روزانہ کا خرچہ تیس لاکھ سے بڑھ کر پچاس لاکھ بھی ہوجائے تو اس سے پنجاب کے غریب آدمی کا کونسا بھلا ہوگا۔؟
عوام کے لئے بے فائدہ سیاسی نظام کی تبدیلی کے لئے کئی آوازیں اٹھیں لیکن وقت کی دھول میں بے نشان ہوگئیں۔ نہ جنرل حمید گل کے نرم انقلاب کو پذیرائی ملی نہ عمران خان کے ”انصاف“ نے جڑ پکڑی۔”لیفٹ“ کی پارٹیاں روسی فیڈریشن کے ختم ہونے کے ساتھ ہی بوریا بستر سمیٹ کر سرمایہ دارانہ نظام میں روپوش ہوگئیں اور ”رائٹ“ کی پارٹیوں میں مذہبی جماعتیں سوائے دماغی اور سیاسی انتشار کے اس سماج کو کچھ نہ دے سکیں۔
مذہبی گروہوں نے آخری امیدیں ”طالبان“سے وابستہ کی تھیں لیکن ”طالبان“ اپنے کّٹر اور غیر انسانی اورمجرمانہ نظریات کے سبب تعمیری طاقت کی بجائے تخریبی طاقت کے طور پر ابھرے اور دیکھتے ہی دیکھتے اسٹیٹ کی مشینری سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگئے۔آج بڑی بڑی مذہبی جماعتیںامریکہ کی مخالفت کرتی دکھائی دیتی ہیں لیکن ”طالبان“ سے ہمدردی کا اظہار کرنے سے کتراتی ہیں۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ پاکستانی معاشرے میں ”طالبانائزیشن“ کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ گلے سڑے سیاسی نظام اور اس کے سرپرستوں سے عوام جان تو چھڑانا چاہتے ہیں لیکن کسی خون خرابے کے ذریعے نہیں بلکہ ووٹ کی طاقت سے اصلاح کے خواہشمند ہیں۔
تیس سال قبل شہر کراچی میں ایک نیا سیاسی فلسفہ سامنے آیا تھا۔ یہ فلسفہ”متوسط طبقہ کی لیڈر شپ کے ذریعے متوسط طبقہ کی حکمرانی کا فلسفہ ہے“۔ سیاسی گراﺅنڈ بنانے کے لئے نوجوان الطاف حسین نے مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھی اور جب اس فلسفہ کو”منی پاکستان“ کے باسیوں نے پوری طرح قبول کر لیا اور اس کے ثمرات سے ریڑھی بان ‘سکول ٹیچر اور ہنرمندی جیسا پس منظر رکھنے والے شہری بااختیار ہوئے تو اس تحریک کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے دلوں میں سیاسی خنجر گھونپنے کے دوران تحریک میں شامل شرپسندوں نے گھناﺅنے جرم نہیں کئے ہوںگے لیکن یہ پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ الطاف حسین اور اس کے فلسفہ سے متفق لیڈر شپ نے اپنا نظریاتی سفر کھوٹا نہیں ہونے دیا اور مناسب وقت آتے ہی اپنی تحریک کو ”متحدہ قومی موومنٹ“ کا نام دے دیا۔ ایم کیو ایم کے ووٹ بینک میںکمی کی بجائے ہر انتخابات کے بعد اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے اور اس تحریک کے اندر صرف مہاجر ہی نہیں بلکہ پٹھان‘سندھی اور پنجابی بھی شامل ہیں اور تحریک حیدر آباد اور کراچی سے نکل کر سندھ کی سرحدیں عبور کرتی ہوئی پنجاب کے دروازوں پر دستک دے رہی ہے۔
پنجاب کے دانشور بھی کہہ رہے ہیں کہ ایم کیو ایم ہی ایک متبادل سیاسی سوچ ہے جس کو اپنا کر پاکستانی عوام اپنے دکھوں کا مداوا کرسکتی ہے۔چونکہ الطاف حسین نے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی سرپرستی کے بغیر ایک سماجی تبدیلی رونما کرکے دکھا دی ہے اور یہ انقلابی سیاست گزشتہ تیس برس سے اس دھرتی پر پھل پھول کھلا رہی ہے اس لئے تبدیلی کے خواہش مند کسی پاکستانی کے لئے سیاسی خلا کا بہانہ بنا کر سیاست سے لاتعلقی کاکوئی جواز نہیں رہتا۔
تعصبات اپنی جگہ۔الطاف حسین کے خلاف پروپیگنڈے کی کوئی حد ہے نہ حساب۔ مجھے چونکہ کاروباری سلسلے میں کراچی جانے کا موقع ملتا رہتا ہے اور میں ناقدانہ نگاہوں سے کراچی کے شہریوں کی رائے جاننے کی کوشش بھی کرتا ہوں اس لئے میری رائے میں آئندہ انتخابات میں بھی ایم۔ کیو۔ایم کے ووٹوں میںکمی دیکھنے والے صرف شرمندہ ہی ہوں گے۔
گلگت بلتستان کے انتخابات میں تمام حلقوں سے ایم۔کیو۔ایم نے اپنے امیدوار کھڑے کردیئے ہیں یہ اعلان سن کر ایک اطمینان سا ضرور ہوا ہے۔ساحل کراچی سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا گلگت میں بھی بہار کا پیغام دے رہا ہے ۔ دیکھئے پنجاب کا متوسط طبقہ تبدیلی کی متحدہ آوازکب سنتا ہے