Dec
10
|
Click here to View Printed Statement
متحدہ قومی موومنٹ کے دامن میں ایسے ہیرے بھی ہیں کبھی سوچا نہ تھا۔شائد سوچ کا دائرہ متعصب حدوں میں محدود ہی رہتا اگر مجھے تواتر کیساتھ شہر قائد آنے کا موقع نہ ملتا۔آج کا کراچی وہ نہیں جہاں سے فقط مار دھاڑ اور فرقہ وارانہ تشدد کی خبریں موصول ہوتی تھیں۔
نہ ہی یہ وہ کراچی ہے جہاں کبھی بمبئی کی طرز پر مافیا نے پنجے گاڑ رکھے تھے اور کاروباری لوگ وہاں سے بھاگ جانے میں ہی عافیت محسوس کرتے تھے۔ نہ یہ وہ منی پاکستان ہے جس میں ٹریفک دوپہر کے وقت جام ہوتا تھا تو شہریوں کو رات سڑکوں پر ہی گزارنا پڑتی تھی۔ اکتوبر 2005ءکو شہر کراچی نے اپنے ایک ایسے فرزند کو اپنے معاملات سونپے جو کسی وڈیرے یا جاگیردار کے گھرپیدا نہیں ہوابلکہ ورکنگ اورمڈل کلاس کا چشم وچراغ ہے۔ ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی ‘ملائشیا سے گریجوایشن کی ‘پھر وسائل مجتمع کرکے انگلینڈ سے ایم بی اے کی ڈگری لی اور اپنے قائد جناب الطاف حسین کے حکم پر واپس کراچی آکر پاکستان کے سب سے بڑے اور بگڑے ہوئے شہر کو سنوارنے کا حلف اٹھایا۔
36سالہ سید مصطفی کمال نے اہل کراچی کو ایک نئی سوچ دی۔ کراچی سب کا ‘سب کراچی کے “۔ملکیت کا خوبصورت احساس۔شہریوں کو طبقہ‘علاقہ‘زبان‘ سیاست سب سے بالاتر ہو کر اپنے شہر کا خود مالک بننا ہے۔ اسے بنانے‘ سنوارنے‘ اٹھانے اور بڑھانے کے لئے اپنے وقت میں سے وقت دینا ہے۔اپنے فکر میں سے فکر دینی ہے اور اپنے حسنِ اخلاق میں سے خوبصورتی منتقل کرنا ہے۔
نوجوان میئر نے بڑی مستعدی سے اپنے اردگرد بہترین انسانی سرمایہ جمع کر لیا۔ اپنے مزاج کے مطابق اپنی ٹیم کا انتخاب کیا‘ عمل کی تڑپ دیکھی اور فیلڈ میں اتار دیا۔ جس ملک میں گورنس کے خواب دیکھتے عوام کی آنکھیں تھک گئی ہوں وہاں گڈ گورنس کو ایک معجزہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ سچ یہی ہے کہ متحدہ کے اس کارکن نے کراچی میںمعجزہ کر دکھایا ہے۔ یہ احساس اس وقت اور پختہ ہوا جب ملک کی اعلیٰ عدالت کے ایک جج نے گڈ گورنس کی مثال کے طور پر کراچی کا حوالہ دیا تھا۔
شہر کی صفائی کا منصوبہ ہو‘ سیوریج کا معاملہ ہو‘ ٹریفک کا مسئلہ ہو‘ امن وامان کی بات ہو یا شجرکاری کا مرحلہ ۔ مصطفی کمال اور ان کے کونسل ناظمین جب کوئی فیصلہ کر لیتے ہیں ‘ پورا اترے ہیں۔ حق پرستوں کی اس حق پرستی کے ناقدین بھی گواہ ہیں اور آج جب میں کراچی کی سڑکوں پر باآسانی اور بہ روانی گاڑی چلائے جارہا ہوں تو میرے دل سے سید مصطفی کمال کے لئے دعائیںنکلتی ہیں۔ کاش کہ یہ شخص ہمیشہ کے لئے اس شہر کو نصیب ہوجائے!
کراچی ہماری قومی معیشت میں ریڑھ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ پاکستان کا واحد بین الاقوامی شہر ہے ۔ کسی میٹروپولیٹن سٹی کو میٹروپول ہونے اور گلوبل ورلڈ میں شمولیت کےلئے کچھ بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ شہری منصوبہ بندی‘بیرونی سرمایہ کاری اور اعلیٰ انسانی وسائل۔آج کراچی میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کا عمل ایک تسلسل سے آگے بڑھ رہاہے۔ کونسا دن ہے جب بیرون ممالک سے یہاں وفود نہیں آتے اور درجنوں منصوبے ہیں جن میں زرمبادلہ اپنا رنگ بکھیررہا ہے۔سید مصطفی کمال نے کراچی کو دوسرا دبئی بنانے کا جو خواب دیکھا اور دکھایا تھا‘اہل کراچی اس کو پورا ہوتے محسوس کرتے ہیں۔
عالمی شہرت یافتہ رسالے ”فارن پالیسی“ نے کراچی کے میئر کو دنیا کے تین کامیاب ترین میئرز میں دوسرے نمبر پرکامیاب قرار دیا۔”میئر آف دی مومنٹ“ کا خطاب دیا گیا۔ اس اصطلاح کا صحیح مفہوم تو ماہرین ہی بتائیں گے لیکن کراچی کے حالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کا سٹی ناظم واقعی متحرک ‘ باصلاحیت اور محنتی شخص ہی ہوگا۔
اہل کراچی کو ہی نہیں پاکستان بھر کے عوام کو جناب سید مصطفی کمال کی کاوشوں کو سراہنا چاہیے کیونکہ انہوںنے ثابت کیا کہ تیسری دنیا انسانی جوہر سے خالی نہیں اور نہ ہی پاکستان میں قحط الرجال ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایسا سیاسی نظام غالب آئے جہاں حسب ونسب اور دولت وثروت کی بجائے صلاحیت‘ ایمانداری اور سخت کوشی کی بنیاد پر معاشرے کے افراد کو ذمہ داریاں سونپی جائیں۔متوسط طبقہ اگر کسی ملک کی باگ دوڑ سنبھال لے تو پرامن انقلاب برپا ہوسکتے ہیں۔کاش کہ اپنے وطن عزیز میں ایسا ہوسکے۔ میںناگن چورنگی برج کے اوپر سے گزر رہا ہوں۔چلتی ٹریفک اور جگ مگ کرتی گاڑیوں کو دیکھ کر”کراچی کا جمال ۔سید مصطفی کمال“ خود بخود زبان پر آجاتا ہے۔