Dec
18
|
Click here to View Printed Statment
سوات کے بعد جنوبی وزیرستان میں بھی فوجی آپریشن کامیابی کے ساتھ خاتمے کے قریب ہے۔ کرم اور خیبر ایجنسی میں بھی شدت پسندوں کا خاتمہ کیا جارہاہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ فوجی آپریشنز کی کامیابی سے ملک کے اندر شدت پسندوں کا خاتمہ ہوجائے گا اور یوں اس ملک کو طالبانائزیشن اور دہشتگردی سے نجات مل جائے گی۔
سوات میں آپریشن راہ نجات کے بعد امید یہی تھی کہ اب کم از کم وادی سوات اور دیر میں دہشتگردی کا کوئی واقعہ نہیں ہوگا لیکن نہ صرف یہ کہ عید کے تیسرے روز اے این پی کے ممبر صوبائی اسمبلی کو خودکش حملے میں اڑا دیا گیا بلکہ پشاور کچہری کے اندر خون کی ہولی کھیلی گئی۔ بچے اور عورتیں ناحق جاں بحق ہوئے۔ راولپنڈی پریڈ لین میں بھی دہشتگردوں کا اصل ٹارگٹ مسجد میں نماز ادا کرتے فوجی افسران کے بچے تھے جن کو بچاتے ہوئے جنرل عمر بلال سمیت انتہائی قیمتی افسران شہید ہو گئے۔ ابھی پریڈ لین مسجد کے اندر خون دھویا بھی نہیں جاسکا تھا کہ ملتان کے اندر دہشت و بربریت کا مظاہرہ ہوگیا۔ ایم کیو ایم کے قائد نے شہداءکے لئے بروقت سوگ کا اعلان کیا۔لاہور اور ڈیرہ غازی خان میں بھی ظلم ہوا۔ متحدہ کے رہنماﺅںنے شہدا کی قبروں پر پھول چڑھائے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ کچھ علم نہیں یہ حروف شائع ہونے تک خدانخواسطہ پھر کونسی قیادت ڈھائی جاچکی ہو۔
کیا ہم بحیثیت قوم یہ سوچ کر کہ دہشتگردی کے واقعات غیر ملکی طاقتیں کرا رہی ہیں مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں ۔ یاہم یہ سمجھ کر خوش ہوجائیں کہ قبائلی علاقوں میں محض چند ایک لوگ ایسے ہیں جو کہ پر تشدد کارروائیوں میںملوث ہیںاور فوجی آپریشنز سے یہ ”مٹھی بھر لوگ“ ختم ہوجائیںگے۔ اگرایسا ہے تو پھر جنوبی وزیرستان کے چپے چپے پر فوج کا مکمل کنٹرول ہوچکا ہے۔ لیکن یہ دہشتگرد کہاں سے آرہے ہیں؟ اگر یہ محض کسی ایک قبیلہ سے تعلق رکھنے والے گنے چنے افراد ہیں تو اب تک ہزاروں دہشتگرد مارے جاچکے ہیں آخر ان کا خاتمہ کیوں نہیں ہوتا۔ ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ نے بغیرسوچے سمجھے محض اپنی طاقت کے زعم میں افغانستان پر یلغار کردی اور سابق صدر پرویز مشرف نے اس یلغار میں غیر مشروط حمایت کرکے امریکی مخالف تمام طاقتوں‘جذبوں اور سوچوں کوپاکستان اور پاکستانی افواج سے ٹکرانے کا راستہ دے دے۔ آج بھی ہم ہر طرح کی وضاحتیں دینے کے باوجود قوم کے ایک کثیر حصے کو یہ یقین نہیں دلا سکے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے کر ہم امریکہ کی نہیں اپنی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی پاکستان کے اندر کوئی خودکش حملہ ہوتا ہے تو عوام جہاں دہشتگردوں کو بددعائیں دیتے ہیں وہیں امریکہ کو بھی کوستے ہےں۔
ہمیں یہ حقیقت قبول کر لینی چاہیے کہ ہم جن کو چند ایک طالبان‘ دہشتگرد‘شدت پسند‘انتہا پسند کہہ کرپہاڑ کو رائی بنانے کی خواہش پال رہے ہیں وہ چند ایک نہیں۔ پاکستانیوں کا ایک بہت بڑا حصہ امریکی مخالف جذبات میں بہہ کر ان طالبان کا درپردہ معاون بن چکا ہے۔
امریکہ نے واضح اعلان کردیا ہے کہ وہ 2011ءکے بعد افغانستان میں نہیں رہے گا۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وہ 2011ءسے ایک سال پہلے ہی یہاں سے فارغ ہوجائے گا۔امریکہ رہے یا جائے پاکستان کی سیاسی قیادتوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لئے قبائلی عوام کو شدت پسندوں سے علیحدہ کیا جائے۔بات چیت پر تیارطالبان رہنماﺅں کو بھی اعتمادمیں لیں۔ ہم نے آپریشنز کرکے دیکھ لئے لیکن جوںجوں آپریشنز کا دائرہ وسیع ہوتا جاتاہے توں توں دہشتگردانہ کارروائیاں بڑھتی جارہی ہیں۔
جنرل حمید گل اور عمران خان طالبان سے مذاکرات کے لئے خود کو سامنے لائے ہیں۔چونکہ ان رہنماﺅں کی سیاسی حیثیت مسلمہ نہیں ہے اس لئے ان کی بات شائد وہ اثر نہ دکھا سکے جس کا حالات کاتقاضا کرتے ہیں۔ جناب الطاف حسین آج کل نہ صرف کراچی بلکہ لاہور‘گلگت اور بلتستان میں بھی مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ انہوںنے حال ہی میں ملک بھر کے تمام علماء سے خطاب کرکے مذہبی قوتوں کا اعتماد بھی حاصل کر لیا ہے۔کراچی جو کہ متحدہ کا ”ہوم گراﺅنڈ“ ہے وہاں اڑتیس لاکھ کے لگ بھگ پٹھان بہن بھائی بستے ہیں۔ یقینا ان میں قبائلی علاقوں کے بھی بہت سے لوگ ہوں گے ۔ کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ متحدہ کوئی ایسی راہ نکالے کہ ”طالبان“ تشدد کی راہ چھوڑ کر سیاسی عمل میں حصہ دار بن سکیں۔
مجھے یقین ہے کہ جناب الطاف حسین کی شخصیت میںوہ کرشمہ دکھائی دیتا ہے کہ اگر وہ ارادہ کر لیں تو بظاہر بہت ہی ناممکن کام ممکن بن سکتا ہے۔ پاکستان کو خانہ جنگی والی صورتحال سے بچایاجاسکتا ہے۔