Mar
01
|
Click here to View Printed Statment
افواج پاکستان کی بے پناہ قربانیوںکے بعد اہل سوات کو ”ظالمان“ سے نجات مل چکی ہے۔اب نہ کسی معصوم عورت کو کوڑے مارے جاتے ہیں نہ ہی کسی مظلوم سواتی کا گلا کاٹا جاتا ہے۔جن بازاروں میں اسلام کے جعلی دعویداروں کا خوف اژدھا بن کر ڈستا تھا اب وہاں شہریوں کے غول کے غول اس حیات مستعار سے وابستہ سرگرمیاں سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔
سکولوں میں بچیاں پھولوں کی مانند علم وہنر کی فضاءمیں کھلتی‘پھلتی اور پھولتی دکھائی دیتی ہیں۔اب کوئی جاہل ”مولوی“ کوئی کم علم ”ملاں“ اور کوئی گمراہ کمانڈر“ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی کے دین کو بدنام کرنے کےلئے بے لگام نہیںہے۔کوئی ریڈیو سٹیشن شام ڈھلتے موت کی بولیاں نہیں بولتا‘کوئی قاتل چوک تڑپتی لاشوں سے سجایا نہیں جاتا۔انسان جنہیں ان کی ماﺅں نے آزاد جنا ہے اب انہیں غلام بنانے کے لئے زنجیریں اور تعزیریں لئے کوئی کوتوال ڈھارتا دکھائی نہیں دیتا۔ انسانوں کے لئے شائد خوف سب سے بڑا عذاب ہے اور اس عذاب سے نجات دلانے کے لئے ہمارے گھبرو جوانوں نے ‘بیٹوں اور بھائیوں نے تاریخ کی بے مثال قربانیاں پیش کردی ہیں۔قومی وجود پر ابھرنے والے پھوڑوں اور ناسوروں کو کاٹ پھینکا ہے۔سوات ایک بار پھر بہاریں لوٹانے اور خوشیاں بانٹنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
دنیا کی عسکری تاریخ میں ایسی شائد ہی کوئی مثال ملے کہ ملک کو خانہ جنگی میں مبتلا کرنے والے ”خوارج“ کو اتنی قلیل مدت میں کسی قومی فوج نے مضحل کیا ہو۔آپریشن راہ نجات پر جس قدر لکھا جانا چاہیے تھا لکھا نہیں گیا اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے والوں کی ہمت‘حوصلے اور قربانی کی جس قدر داد دی جانی چاہیے تھی وہ داد دینے میں بھی ہم بحیثیت قوم بہت کنجوس ثابت ہوئے ہیں۔عدلیہ اور پارلیمنٹ کے اختیارات کی غیر ضروری جنگ نے ذرائع ابلاغ اور عوام کی سوچوں کو کچھ اس طرح یرغمال بنا لیا ہے کہ سوات میں ملنے والی بے مثل کامیابیوں کے تذکرے ناقابل ذکر قرار پاگئے۔ کوئی سازش نہ بھی ہو تو بھی حقیقت یہی ہے کہ افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہونے والی پاکستانی قوم کو خواہ مخواہ دوسرے ایشوز میں الجھا کر بہادر فوجیوں کا مورال گرانے کی کوشش کی گئی ہے۔
گزشتہ دنوں چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے مالاکنڈ ڈویژن کا دورہ کیا اور آپریشن راہ نجات کی تکمیل کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ اب حکومت کو آگے آنا چاہئے اور سوات میں سول حکمرانی کو مضبوط بنانا چاہیے۔
چونکہ ہماری مسلح افواج انتہائی محب وطن ہیں اور انہیں اس ملک کے داخلی استحکام کی فکر ہمیشہ دامن گیررہتی ہے۔ اس لئے آرمی چیف نے بروقت حکومت پاکستان کی توجہ اس امر کی طرف دلائی ہے کہ فوجی آپریشنز مخصوص اور محدود مقاصد کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اور ان مقاصد کے حصول کے بعد بالآخر سول انتظامیہ کو ہی معاملات سنبھالنے ہوتے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ سوات اور مالاکنڈ کے اندر موجودہ پولیس کی ایک بار پھر سکروٹنی کرے اور سیاسی بنیادوں پر بھرتی کئے گئے پولیس افسران کو ہٹا کر وہاں واقعتاً ایماندار اور اہل پولیس افسران لگائے جائیں۔سول انتظامیہ بھی ایسے نیٹوٹرل افسران پر مشتمل ہو جو تمام پارٹیوں کے لئے قابل قبول ہوں۔ یہ یاد رہے کہ طالبان کے لئے راستے کھولنے میں پولیس انتظامیہ اور عدلیہ کی کرپشن نے بہت بڑا کردار ادا کیا تھا۔ اہل سوات سے شریعت اسلامیہ کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یاد رہنا چاہیے کہ مخصوص قاضیوں کے تقرر سے شریعت نافذ نہیں ہوجاتی۔جب تک وہاںایسا نظام عدل نافذ نہیں ہوتا جو عام سواتی کو انصاف فراہم کرسکے طالبان کی واپسی کے امکانات ختم نہیںہوںگے۔یہ روز روز کے کرفیو کسی بڑے طوفان کا سبب بن جائیںگے۔
ہمارے خیال میں حکومت کو تمام غیر ضروری ایشوز کو ترک کرکے فی الفور آرمی چیف کی بات کی تہہ تک پہنچ جانا چاہیے اور سوات کے شہری علاقوں سے فوج کی واپسی کا راستہ ہموار کرنا چاہیے۔ آرمی چیف کے بروقت انتباہ کوغنیمت جاننا چاہیے ۔ اب ایسا نہ ہو کہ پھر سے کوئی فوجی آپریشن کرنا پڑے۔اب وقت ہے کہ سوات کو سنبھال لو‘ورنہ دوبارہ شائد فوج بھی کامیاب نہ ہوسکے۔!