Jun
17
|
Click here to View Printed Statement
پاک ایران تعلقات کو سرد مہری کا شکار کرنے کےلئے ہمارے ہاں بعض اوقات سپانسرڈ قسم کی خبریں اچھالی جاتی ہیں لیکن ہفتہ بھر ایران میںرہ کر اور وہاں کے لوگوں سے مل کر دل انتہائی مطمئن ہوا ہے کہ اہل ایران نہ صرف یہ کہ پاکستان کے بارے میں بے پناہ محبت رکھتے ہیں بلکہ اس محبت کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ انقلاب ایران سے قبل بھی ایرانی اور پاکستانی اقوام میں بھائی چارے کی فضا ہی تھی لیکن اسلامی انقلاب کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان ”اسلامی جمہوریہ“ کے لفظ نے معنوی اعتبار سے قربت کو فروغ دیا ہے اور علامہ اقبالؒ کی فارسی شاعری کے حوالے نے ایرانی اور پاکستانی بہن بھائیوں کو قلبی طور پر بھی یک جان دو قالب بنا ڈالا ہے۔
ایران میں ایک فروٹ شاپ پر رُکا اور تربوز کا بھاﺅ پوچھا۔ ریٹ ہزاروں تمن تھا‘ میں نے اقبال کا فارسی شعر پڑھ کر اپنا تعارف کرایا تو دُکاندار اپنی نشست سے اٹھا ‘مصافحہ کیا اور جواباً اقبال لاہوری کے چند اشعار سنائے اور تربوز کی خریداری پر پورے پانچ سو تمن کی رعایت دیدی۔
یہ ایک سرکاری قسم کا دورہ تھا۔ پاکستان رائٹرز یونٹی کا صدر ہونے کی حیثیت سے اپنے گروپ کا میں سربراہ بھی تھا۔ اسلام آباد میں ایران کے ہردلعزیز سفیر جناب ماشاءاللہ شاکری سے ایران کے حوالے سے گاہے بگاہے گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ لیکن ایران جا کر وہاں کے حالات کو دیکھنے کا اشتیاق تھا۔رہبر انقلاب جناب امام خمینیؒ کی برسی کے حوالے سے ایران میں ہونے والی تقریبات کے سلسلے میں دنیا بھر سے مندوبین کو تہران بلایا گیا تھا۔پاکستان سے بھی تمام بڑے شہروں سے اہل قلم و قرطاس کی نمائندگی موجود تھی۔ اسلام آباد سفارتخانے کی طرف سے نہایت سرعت کے ساتھ ہمارے سفر کے تقاضے پورے کئے گئے ۔ ہمیںکراچی سے تہران جانا تھا۔ تہران ایئرپورٹ پر اترتے ہی ہمیں ”معزز مہمان“ کا پروٹوکول مل چکا تھا۔ایئرپورٹ کے باہر ہمارے ناموں کی تختیاں لئے ایران کے مستعد افسران استقبال کے لئے کھڑے تھے۔
رہائش گاہ پہنچنے کے بعد ہمیں آنے والے چار دنوں کی تقریبات کا شیڈول دے دیاگیا۔ گھومنے پھرنے کے لئے کافی وقت تھا اور بڑی بات یہ کہ بھارت یا کسی اور ملک کی طرح آزادی سے گھومنے پر کوئی پابندی یا ہدایت بھی نہیں تھی۔ خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے بھی کسی قسم کے ”گائیڈ“ مسلط نہیں تھے۔ اس لئے سامان وغیرہ رکھنے کے بعد تہران دیکھنے نکل کھڑے ہوئے۔تہران کی سڑکوں پر مرد و زن کی چہل پہل تھی۔ عورتیںاسلامی پردے میںاپنی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھیں۔مجال ہے کہ کوئی بھی لفنگا ان کو دیکھ کرگھورے‘ سیٹی بجائے یا آواز کسے۔ نوجوان لڑکیاں اورکالج کی طالبات بغیر کسی خوف و خطر بڑی خوداعتمادی کے ساتھ اپنے روزمرہ کے معمولات سرانجام دیتی دکھائی دیں۔ اسلام آباد اور لاہور کے برعکس تہران کی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر خواتین کی موجودگی سے کسی قسم کی شہوت یا شیطانی ہوس کا تصور سر ہی نہیں اٹھاتا۔میرے نزدیک یہ تبدیلی اسلام اور انقلاب کا سب سے ثمر ہے جو کسی خوش نصیب معاشرے کو نصیب ہوسکتاہے۔
ہمارے ساتھ انڈیا سے آئے ہوئے مسلمان بھی تھے۔ ان لوگوں سے غیر رسمی گفتگو میں تلخی پیدا ہوگئی۔انہوں نے اپنی دلیل اور منطق کی تان اس پر توڑی کہ دنیا بھر میں ہونے والی دہشتگردی کا مرکز پاکستان ہے اور اس مرکز کوآئی ایس آئی چلا رہی ہے ۔بھارتی مسلمانوں کی ایسی سوچ ہرگز نہیں۔یہ ”را“ کے سدھائے ہوئے لوگ ہوںگے۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ کیا کشمیریوں کی عزت و آبرو سے کھلینے اور بے گناہ کشمیریوں کے قتل کرنے میں بھارتی افواج بھی آئی ایس آئی سے ہی ہدایات لیتی ہیں؟کیا گجرات میںمسلمانوں کا قتل عام آئی۔ایس۔آئی نے کرایا تھا اور کیا بابری مسجد کا انہدام ہماری گزارش پر کیا گیا تھا؟ ابھی میں نے چند سوال ہی کئے تھے کہ وہ ناک بھوں چڑھاتے محفل سے اٹھ کر چلے گئے۔
کشمیر کی بات چلی تو ہمارے اپنے پاکستانی دانشور اقبال حیدر بھارت کی بولی بولتے نظر آئے۔”چھوڑیں جی۔کشمیر کے لئے اور کتنے لاکھ لوگوں کی قربانی دینی ہے۔آگے چلیں“۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور عرض کی کہ آپ تو جمہوریت پسند ہیں۔ہمارے انکل نسیم انور بیگ فرماتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا ایک آسان سا حل ہے کہ کشمیریوں سے پوچھ لیا جائے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں۔یہ ایک خالص جمہوری‘ انسانی اور اخلاقی سا مطالبہ ہے اسے مان لینے میں آخر حرج کیا ہے اور آپ اس قدر خفا کیوںہیں؟
ایک عظیم الشان سیمینار بھی تھا۔اسلامک کلچر اینڈ ریلیشنز آرگنائزیشن کے صدر اور مردِ مجاہد ایرانی صدر جناب احمدی نژاد کے مشیر ڈاکٹر مہدی مصطفوی کی طرف سے دعوت تھی۔ جگہ جگہ مرگ بر امریکہ‘مرگ بر اسرائیل کے بینرز اور نعرے درج تھے۔جب ایک مقرر کی تقریر کے بعد یہ نعرے لگے تو میں نے بھی نعرے لگوانے شروع کردیئے۔“مرگ برامریکہ‘مرگ براسرائیل ‘مرگ بر انڈیا“ایرانی اور پاکستانی احباب نے بڑے زور سے ”مرگ بر انڈیا ‘ کہا اور یہوں بھارت سے آنے والا وفد کھسیانا ہو کر رہ گیا۔
مشہد گئے۔روضہ امام رضا ؒپر حاضری دی ‘ایران کی معاشی صورتحال کا بغور جائزہ لیا۔ اس ہفتہ بھر سفر کے دوران ایک احساس پختہ ہوگیا کہ ایرانی قوم پر امریکی پابندیوں کاکوئی منفی اثر مرتب ہونا محال ہے۔ ایسی کوئی دوسری خوددار قوم شائد اس وقت کرہ اراض پر ناپید ہو۔ خودداری ہی اہل ایران کی قومی پہچا ن ہے۔
پاکستان اور ایران کی قربتوں کا اس امر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تمام تر بیرونی دباﺅ کے باوجود پاکستان نے گیس معاہدہ کر ڈالا اور تمام تر خطرات کے باوجود ایرانیوں نے گیس پائپ لائن بچھانی شروع کردی ہے۔پاک ایران تعلقات میں رخنہ ڈالنے والوںکی امیدوں پر ایک بار پھر پانی پھر گیا!