Jun
22
|
Click here to View Printed Statement
یہ ملاقاتیں بھی عجیب ہیں۔جب میل ملاپ کے سارے راستے بند ہوں اور فریقین کوماضی مرحوم کی محبتیں ڈسنے لگیں تو پھر کونسا طریقہ نکالاجائے کہ شریفانہ طرز سیاست پر حرف بھی نہ آئے اور ملاقات کا سبب بھی پیدا ہوجائے۔ اس کی زندہ اور تازہ ترین مثال کالا باغ ڈیم کے اشو پر سینٹ کے اندر مسلم لیگ (ن) اور (ق) کے ارکان کا یک زبان ہونا ہے ایک ایسا اشو جسے خود مسلم لیگ (ن) اور(ق) نے”وسیع تر قومی مفاد“ میںدفنا دیا تھا‘قومی وحدت کو ڈیم پر قربان نہ کرنے کا اعلان بھی کیا تھا‘متبادل
ڈیمز بنانے کے آپشنز دے کر اپنے ووٹروں کومطمئن کردیا تھا اب اچانک سیاسی گورکنوں نے اس مردہ ایشو کے استخوان کو وقت کے قبرستان سے کھود کر نکالا جھاڑ پونچھ کر قومی ضرورت کی طشتری میں سجایا اور سینٹ کے بجٹ اجلاس میں اس کو اپنی مسیحائی سے زندہ کردیا۔آج ہم ایک بار پھر یہ خوشخبری سن رہے ہیں کہ کالا باغ ڈیم بنے گااور (ن) اور (ق) لیگ ملکر اس کارخیر کو سرانجام دیں گی۔ایک بار پھر پتہ چلا کہ ڈیم کے حق میں بولنے والے غدار ہیں اور اس کی مخالفت کرنے والے انتہائی محب وطن ہیں۔پھر معلوم ہوا کہ اے۔این۔پی نے اقتدار کے ایوانوں کو یرغمال بنا رکھا ہے اور پھر انکشاف ہوا ہے کہ پی پی پی ‘اے این پی ‘ایم کیو ایم‘سندھی قوم پرست‘بلوچ قوم پرست سب اس کالے‘کلموہے ڈیم کے خلاف لاشیں گرانے پر آمادہ ہیں اور مسلم لیگ(ن) اور (ق) پنجاب کی آواز بن کر ایوانوں میں گونج رہی ہے!
نواز لیگ کا ایک سیاسی پرابلم ہے۔نواز لیگ اپنے اوپر لگے ”فرینڈلی اپوزیشن“ والے لیبل کو دھونا چاہتی ہے۔میثاق جمہوریت کے ”ٹرکل ڈاﺅن ایفیکٹ“ کے ذریعے جناب نوازشریف کی جلا وطنی ختم ہوئی‘نااہلیت اہلیت میںبدلی اورجناب شہبازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں۔اٹھارہویں ترمیم نے دونوں بھائیوںکو مسلم لیگ (ن)کا تاحیات رہبر اور ان کی اولاد کو ولی عہدوں کا درجہ دے دیا۔ آئندہ مکمل بھاری مینڈیٹ کی توقع ہے۔”وزیراعظم نوازشریف“ کے نعرے کانوں میں رس گھولتے اور روح کو بے چین رکھتے ہیں۔ کھیل بچا کر رکھنا ہے اس لئے موجودہ حکومت کے خلاف ”عوام“ کو سڑکوں پر نہیں لانا۔ لیکن ایسا بھی نہ ہوکہ ”فرینڈلی“ ایک طعنہ بن جائے اور آئندہ الیکشن میں ووٹ بینک پنجاب بینک کی طرح دیوالیہ ہوجائے اس لئے کوئی ایسا ایشو کھڑا کیا جائے جس کے ذریعے کم از کم پنجاب کا ووٹر بددل نہ ہو۔ اس غرض کے لئے کالا باغ ڈیم ایک مفید ایشو ہو سکتا ہے۔
مسلم لیگیوں کے اتحاد کے لئے بعض حلقے دباﺅ بڑھا رہے ہیں۔آئندہ انتخابات میں پی پی پی کا صفایا کرنا ہے اس غرض کےلئے تمام مسلم لیگیوں کو متحد ہوجانا چاہیے۔ایک فکر پروان چڑھ رہی ہے۔میاں برادران چوہدری برادران کے علاوہ باقی ماندہ مسافروں کو کسی نہ کسی طور ایڈجسٹ کرنے پر آمادہ ہیں لیکن چوہدری برادران چاہتے ہیں کہ سینٹ سے فارغ ہوجانے کے بعد آئندہ کے سیٹ اپ میںان کے راستے کھلے رہیں۔چوہدری پرویز الٰہی مسلم لیگ (ن) کے خلاف ”اعدادوشمار“ جاری کرتے رہتے ہیںتاکہ سودا ایسا ہو کہ پلڑا (ن) لیگ کی طرف بالکل ہی نہ جھک جائے۔چوہدریوں کو علم ہے کہ آنے والے مارچ کے بعد انہیںپیدل مارچ کرکے گجرات جانا پڑے گا اس لئے کالا باغ ڈیم کے ایشو پر (ن) لیگ کی ہمنوائی کی جائے۔ شائد رائے ونڈ والوں کے دل نرم ہوجائیں اور سینہ چاکان چمن سے سینہ چاکوں کا ملاپ ہوجائے!
جانتے ہیں(ن) والے بھی اور (ق) والے بھی کہ کالاباغ ڈیم نہیں بنے گا چاہے اس کا نام عبدالغفار خان ڈیم بھی رکھوا دیا جائے توبھی نہیں بن سکتا۔ جنرل پرویزمشرف کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے ڈیم نہیںبنایاورنہ ڈکٹیٹر کے ایک حکم سے ڈیم بن سکتا تھالیکن بعض ایشو وراثت میں آتے ہیں اور آئندہ آنے والوں کے لئے جوں کے توں چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔مشرف نے اپنے اقتدار کے آٹھ برسوں میں اس ایشو کو دوبار استعمال کیا۔ میاں برادران بھی اب اسے دوسری مرتبہ استعمال کر رہے ہیں۔آخر استعمال کی چیز ہے!
آج کی سیاست ایکبار پھر ڈیم کے ڈھنڈورے پیٹ رہی ہے ۔(ن) اور (ق) شرمندہ شرمندہ ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں ۔ڈیم کنارے ملاقاتیں حسین لگتی ہیں۔دیکھئے معانقے کب ہوتے ہیں!