Aug
05
|
Click here to View Printed Statement
مغرب میں مشرق کی بیٹی سعیدہ وارثی اگر کھوکھلی شخصیت کی مالک ہوتیں تو اپنے ماضی کے سارے حوالے بھول بھال کر یورپ کے رنگ میں رنگی جاچکی ہوتیں۔ نہ انہیں پاکستان یاد ہوتا نہ وہ پاکستانی خواتین کی فلاح و بہبود کیلئے ”سویرا فاﺅنڈیشن“ کی بنیاد رکھتیں نہ وہ گوجرخوان کی ثناءخواں بنتی اور نہ ہی بیول کے ببول انہیں یاد رہتے۔
سعیدہ تو پیدا ہی برطانیہ میں ہوئیں۔ وہ پیدائشی طور پر برطانوی ہیں۔ ان کی تعلیم وتربیت اور پرورش و پر داخت بھی یورپ کے مرکز و محور میں ہوتی رہی۔ ہمارے پاکستانی نوجوان یہاں پیدا ہوتے ہیں ۔بیس بائیس برس کی بہاریں لوٹتے ہیں اور جب انہیں یورپ کا ویزا ملتا ہے اور وہاں روشن دنوں کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں تو اپنا آپ ہی بھول جاتے ہیں۔
صفدر حسین ایک مزدور تھے ایسے پڑھے لکھے بھی نہیں تھے۔کسی شہر سے تعلق نہیں بلکہ گوجرخان کے ایک دیہات میں جوان ہوئے۔ رعنائیاں اور رونقیں نصیب میں نہیں تھیں۔غربت اور افلاس نے جب دھاوا بولا تو ”روشن دنوں“ کی تلاش میں برطانیہ جاپہنچے۔ یہ بات بھی خود سعیدہ وارثی نے بتائی۔ بغیر کسی شرمندگی کے بتائی۔ اپنے ماضی کے کسی باب کو چھپایا نہیں۔ صفدر حسین کی بیٹی ایک مزدور کی بیٹی ہونے پر فخرکا اظہار کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ان کے والد نے ایک مل میں مزدوری کرنا شروع کردی۔ مزدوری کا یہ عمل کئی برسوں پر محیط ہے ۔صفدر حسین کا حسن یہ کہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو اپنے ماضی سے جوڑے رکھا۔ اولاد کو ”مغرب زدہ“ نہیں ہونے دیا۔ برطانوی معاشرے کی اچھائیوں کو اپنانے کی ترغیب دی اور برائیوں سے بچنے کا حوصلہ بخشا۔ حافظ قرآن سعیدہ اپنی پانچ بہنوں کے ساتھ مغرب کے اندر مشرق کی بیٹی بن کر آگے بڑھتی رہی۔
سعیدہ کی سعادت مندی کہ انہوں نے چالیس برس بعد برطانیہ کی حکمران پارٹی کی چیئرپرسن شپ اور حکومت میں وزارت کا عہدہ پانے کے بعد سرکاری حیثیت میں اپنے پہلے دورہ کے لئے بھی پاکستان کو ہی منتخب کیا۔ وہ شلوار قمیض میںملبوس عام پاکستانی خواتین کی طرح دکھائی دیں۔”میرا یہ پاکستانی لباس یورپ میں فیشن بن جائے گا“ انہیں اپنی وضع قطع پر کس قدر فخر ہے!
ہمارے ڈرامہ نگار اور پروڈیوسرز جدیدیت کے نام پر تنگ جینز پہنے ہوئے شرم و حیا سے عاری اداکاراﺅں کی منڈی سجاتے ہیں۔پاکستانی ڈرامے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورا پاکستان ننگا ہو چکا ہے ۔انہیں سعیدہ وارثی جیسی بیٹی دکھائی نہیں دیتی۔ٹی وی میڈیا صرف عورت کی ”نسوانیت“ مارکیٹ کرنے میںمصروف ہے۔ مشرق نے سعیدہ جیسی بیٹیاں بھی پیدا کی ہیں۔ ان کی سوچ اور ان کا لباس آخر غالب کلچر کیوں نہیں بن پارہا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے عوامی سیاست میں آنے کے بعد اپنے سر سے کبھی چادر نہیں اتاری تھی ۔آخر وہ بھی تو آکسفورڈ کی پڑھی ہوئی اور امیر ترین حکمران کی بیٹی تھیں۔قائداعظمؒ کی بہن مادر ملتّ نے کب دوپٹہ اتارا تھا؟ افسوس کہ خودی اور خودداری کے احساس کو ہمارے دماغوں سے زبردستی کھرچا جارہا ہے۔
سعیدہ وارثی نے اپنے گاﺅں میں اپنے لوگوںکے درمیان جاکر بڑی خوبصورت باتیں کیں۔”پاکستان میں ایک مثبت اور انقلابی تبدیلی لانا ناممکن نہیں اگر پاکستان کے حکمران اور عوام اسلامی احکامات اور تعلیمات کی روشنی میں تمام فیصلے کریں تو تبدیلی جلد ہی ممکن ہوسکتی ہے۔ اگر میں مسلسل محنت اور جدوجہد سے اس مقام پر پہنچ سکتی ہوں تو پھر دوسرے پاکستانی یہ سب کچھ کیوںنہی کرسکتے۔“
مجھے ذاتی طور پر سعیدہ وارثی پر فخر ہے کہ میرا تعلق بھی گوجرخان سے ہے ۔ میں نے سعیدہ کے گھر جا کر وہاں ان کے عزیز واقارب کے خیالات براہ راست سنے۔ ایک قومی اخبار ان خیالات اور تاثرات کو رنگین ایڈیشن میں شائع کرچکا ہے۔سچ یہ ہے کہ گوجر خان ہی نہیں پوری پاکستانی قوم نے سعیدہ وارثی سے اچھی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔
سعیدہ وارثی کی سعادت مندی کی یہ انتہا ہے کہ انہوں نے خود آگے بڑھ کر پاکستان کے حوالے سے بعض ذمہ داریاں اپنے سر لے لی ہیں۔ ”میرے علاقے کے لوگ مجھ سے بہت توقعات رکھتے ہیں۔ میری ذمہ داری ہے کہ میں پاکستان اور برطانیہ کو قریب تر لاﺅں“۔برطانیہ جیسے ملک میں بھارتی لابی بہت مضبوط ہے اور کشمیر کے معاملے پر دس برس قبل تک برطانیہ کا موقف پاکستان کے موقف سے قریب تر تھا لیکن اب برطانیہ کے پالیسی ساز اداروں میں بھارتی لابی نے اپنے رنگ جمانے شروع کردیئے ہیں۔ پاکستان کی خوش نصیبی کہ اسے سعیدہ وارثی جیسی سفارتکار مل رہی ہیں۔ اب انگلینڈ میں اسلام آباد کی خوبصورت آواز سنائی دےتی رہے گی!