Nov
01
|
Click here to View Printed Statement
اسّی اور نوے کی دہائی میں اردو اخبارات نے مالی بدعنوانی کی جگہ سمندر پار کی طرف سے دی گئی اصطلاع ”کرپشن“ کو شہ سرخیوں میں اس وقت جگہ دینا شروع کی جب میاںنوازشریف اور بے نظیر بھٹو کی حکومتوںکو کرپشن کے الزامات لگا کر ختم کیاگیا۔ تب سے ذرائع ابلاغ اور ان سے متاثر ہونے والے ناظرین اور قارئین لفظ ”کرپشن“ سے متواتر متعارف ہو رہے ہیں بلکہ اب تو شائد ہم روزمرہ کے معمولات میںبھی کئی بار”کرپشن“ اور ”کرپٹ“ کے الفاظ استعمال کرتے رہتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں پڑھے لکھے لوگ پہلے پہل اخلاقی بدعنوای کو سب سے بڑی کرپشن سمجھتے تھے ۔ جوں جوں اخلاقی قدریں دم توڑتی گئیں تو خالصتاً مغرب کی طرز پر اب ہمارے سماج میں مالی بدعنوانی ہی سب سے بڑی کرپشن قرار پائی ہے چونکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ ممالک کے زیر اثر پھلنے پھولنے والے مالیاتی اداروں سے قرضے لے کر زندہ رہتے ہیں اس لئے جب کوئی حکومت ان قرضوں اور ان پر بننے والے سود کی ادائیگی میںناکام ہوتی دکھائی دیتی ہے تو اس ملک پرکرپشن کے الزامات کی بوچھاڑ شروع ہوجاتی ہے۔حکومتیں بدلتی ہیں ۔نئے قرضے اٹھائے جاتے ہیں اور ملک پہلے سے بھی زیادہ مقروض ہوجاتے ہیں۔
قرضہ لیکر کھاجانا‘رشوت وصول کرنا یا کوئی ٹھیکہ دے کر اس کے عوض کمیشن وصول کرنا کرپشن کے بڑے ذرائع ہوتے ہیں۔کرپشن برمبنی وارداتوں سے آگاہ کرنا ذرائع ابلاغ کا کام ہوتا ہے۔گواس کام کے لئے انسدادرشوت ستانی‘ ایف آئی اے‘ نیب اور احتساب جیسے ادارے بھی موجود رہتے ہیں لیکن حکمرانوںکو ”ٹف ٹائم“ دینے کے لئے” کرپشن کہانی “ کھوجنا اور گھڑنا اب ذرائع ابلاغ میںبیٹھے بعض ” صحافتی مچھندروں“ نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔ کرپشن الزامات کی تحقیق کرنا اور ملزمان کو مجرمان ثابت کرنا عدالتوں کا کام ہوتا ہے لیکن آزاد اور انتہائی طاقتور ذرائع ابلاغ اب عدالتی فیصلہ آنے سے بہت پہلے ہی ”سزائیں“ سنا دیتے ہیں اورمضروب اس قابل ہی نہیںرہتا کہ وہ عدالت سے بری ہونے کے باوجود عوام میں نیک نام ثابت ہوسکے۔
یہ کوئی خبر ہی نہیں کہ انسانی معاشروں میں مالی کرپشن نہیں ہوتی ۔ خبریت صرف اس میں ہے کہ کون کتنا کرپٹ قرار دیا گیا ہے ۔ملکوں کی کرپشن جانچنے کے لئے قرضہ دینے والے ممالک نے ٹرانسپیرنسی کے پردے میں کئی ادارے قائم کر رکھے ہیں۔ ان اداروں کی مالی معاونت کے ذرائع چھپائے جاتے ہیں۔یہ کہاں سروے کرتے ہیں‘ان کے نزدیک کم اور زیادہ کرپشن کا معیار کیا ہے اور یہ کن لوگوں کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں یہ سب ان کا اپنا صوابدیدی نظام ہے۔
حیرت ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ مالی کرپشن امریکہ اور یورپ میں ہوتی۔فرق صرف یہ ہے کہ ان ممالک نے اپنی کرپشن کو خوبصورت نام دے دیئے ہیں۔”کک بیک“ ”کمیشن“۔”سروس چارجز“۔ ”کک بیک“ کا تصور ہی مغرب سے آیا ہے۔مسلمان کے نزدیک رشوت لینے والا ہی نہیں رشوت دینے والا بلکہ رشوت کی طرف راغب کرنےوالا بھی اتناہی برابر کا مجرم ہے۔ لیکن حیرت یہ کہ انہی ممالک کی پروردہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جب پاکستان کو انتہائی کرپٹ ممالک کی فہرست میں شامل کرکے واویلا شروع کرتی ہے تو ہمارے ذرائع ابلاغ کا ایک حصہ اسے آصف زرداری کی مخالفت میں جُوں کا تُوں شائع کرنا بلکہ اس ”فتوے“ کی بنیاد پر پوری قوم اور پوری ریاست کو ”کرپٹ “قرار دےناثواب سمجھتاہے۔
پاکستان اکانومی واچ کے صدر کی حیثیت سے گزشتہ دنوں پانچ چھ ٹی وی چینلز نے ٹرانسپرنسی کی اس تازہ رپورٹ کے حوالے سے انٹرویوز کئے۔ میرا مﺅقف یہ تھا کہ کسی بین الاقوامی ادارے کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی ملک کو کرپٹ قرار دے ۔زیادہ سے زیادہ کسی ملک کے کسی خاص حکومتی ادارے کے حوالے سے ٹھوس ثبوت کی بنیاد پر آپ کوئی خبر دے سکتے ہیں۔سولہ کروڑ مسلمان پاکستانیوں پرکرپشن کا لیبل لگانا کہاں کی ”ٹرانسپیرنسی“ ہے؟ دنیاکا سب سے انتہائی کرپٹ ملک سوئٹزرلینڈ ہے۔سوئس بینکوں میں دنیا بھر میں کرپشن کے ذریعے کمایا جانے والا پیسہ پڑا ہے اورا سی پیسے کی آمدنی سے روئے تمدن پر چمک دمک ہے۔ آج تک تمام تر مطالبات اور اپیلوں کے باوجود غریب ملکوں کا لوٹا ہوا پیسہ سوئٹزرلینڈ نے واپس نہیں لوٹایا۔مبینہ طورپر جناب آصف علی زرداری کے ساٹھ ملین ڈالرز بھی یہیں محفوظ ہیں۔
امریکہ کا حال یہ ہے کہ وہاں موجود لابنگ فرمیں اپنے”کلائنٹ“ سے بھاری معاوضے وصول کرکے کانگریس ممبران کو خریدتے ہیں اور اس طرح مختلف ممالک کے خلاف یا ان کے حق میں فیصلے صادر کروائے جاتے ہیں۔ پاکستان ان غریب ممالک میںشامل ہے جسے مسئلہ کشمیر‘ایٹمی معاملے اورکئی ناقابل تحریر معاملات پر امریکی لابنگ فرموں کو بھاری رقوم دینا پڑتی ہیں۔
برطانیہ کو دولت وثروت کہاں سے ملی؟دنیا بھر کی دولت لوٹ کر اب نیک پاک بنا بیٹھا ہے؟ غریب ممالک میں سب سے بڑی کرپشن غربت ہے۔ غربت ختم کردیں کرپشن ختم ہوجائے گی۔ رہ گئی حکومتیں اور حکمران تو سب جانتے ہیں کہ کون کون سے ادارے اور ممالک ہیں جو غریب ملکوں کے اندر عیاش اور کرپٹ حکمرانوں کو برسراقتدار لاتے ہیں اور جو ان ملکوں کے افلاس زدہ معاشروں کے اندر یو ایس ایڈ کو بطور رشوت بانٹتے پھرتے ہیں ۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جیسے ادارے اپنے مالی سرپرستوں کے مفادات کو تحفظ دینے کے لئے فہرستوں اور نمبروں کی گیمیں کھیلتے ہیں۔ جنوبی ایشیاءمیں پاکستان اور بنگلہ دیش کو کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں نمایاں طور پر شامل کرنے کا مقصد سرمایہ کاری کے رخ کو بھارت کی طرف موڑنا ہے ورنہ کون نہیںجانتا کہ بھارت دنیا کا کرپٹ ترین ملک ہے جہاں قدم قدم پر رشوت مانگی جاتی ہے اور جس کے مسلح افواج کے سرکردہ لوگ مالی بدعنوانیوں کی درجن بھر سکینڈلز میں ملوث پائے گئے ۔
حکومت یا اس کے کسی ادارے میں مالی بدعنوانی سامنے آنے کا مقصد یہ نہیں کہ پورا پاکستان بدعنوان ہوگیا ہے۔ کرپشن کے چاچوں ماموں کو نمبر لگانے سے پہلے اپنے مکروہ کردار کولمحہ بھر دیکھ لینا چاہیے!