Dec
23
|
Click here to View Printed Statements
پاکستان اور چین کے درمیان اربوںروپے کے جو معاہدے ہوئے ہیں ان پر عمل درآمد ہونے میں پانچ برس درکار ہیں ۔ تیس ارب ڈالرز یوں ہی نہیں ملیں گے اس کے لئے وزارتوں کو دن رات کام کرنا پڑے گا اور پرائیویٹ سیکٹر کو پوری طرح متحرک ہونا ہو گا ۔دعا کرنی چاہیے کہ چینی کمپنیاں ہمارے لوگوں کے اندر کام کرنے کا جذبہ ابھار سکیں اور ہم اہل چین کی دوستانہ توقعات پر پورا اتر سکیں ۔اس وقت ہم بحیثیت قوم مایوسی کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں
۔ہمارے پاوں کے ساتھ بد دلی کے بھاری پتھر باندھ دیے گئے ہیں۔ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے کسی معجزے کے منتظر رہتے ہیں۔کام کرنے والے افراد اور اداروں کے لئے چین کی طرف سے آئندہ پانچ برس تک کارکردگی کے جوہر دکھانے کا موقع فراہم کرنا بھی کسی معجزے سے کم نہیں ہے ۔ خدا کرے حکمران طبقوں کے اندر کا پاکستانی جاگ جائے اور وہ اپنے بد ترین انداز حکمرانی کی جگہ بہتر حکمرانی کی طرف لوٹ آئیں ۔ اہل چین کے طفیل ہی اہل اقتدار ذاتی مفاد کی بجائے قومی سودوزیاں کو اپنی قوت متحرکہ بنا لیں ۔ایسے سنہری مواقع قوموں کی زندگی میں بار بار نہیں آتے ۔کوئی دوسری قوم اپنا پیسہ اور وقت لگا کر کسی دوسری قوم کی حالت بدلنے پر آئے روز آمادہ نہیںہوتی ۔ بھکاری سے بیوپاری بننا ہے تو چینیوں کے اخلاص کا جواب عملی اقدامات سے دینا ہو گا ۔ وقت گذاری اور منافقت سے خوشحالی کے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں۔
چینی وزیر اعظم کے دورے کا اصل حاصل تیس ارب ڈالر کے معاہدے نہیں بلکہ وہ نصیحت ہے جو معزز مہمان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران چینی کہاوت کی صورت میں بیان کی ۔ اس کہاوت کو ہمارے تمام عسکری اور سیاسی قائدین نے بقائم ہوش و حواس سنا ہے ۔” دور پار کے رشتہ داروں سے ہمسائے اچھے ہوتے ہیں“یہ وہ نصیحت ہے جس میں ہماری گذشتہ 64 برس کی بے راہ روی کا ذکر ہے ۔ ہماری خارجہ پالیسی بنانے والوں کی ناکامی کا احساس دلانے والی یہ نصیحت اپنے اندر ہمارے سوچنے کے لیے بہت سا سامان لیے ہوئے ہے۔ مخلص دوست ہوتا ہی وہی ہے جو اپنے دوست کو اس کی خامیوں سے آگاہ کرتا رہے۔
آج یہ حقیقت سب پر عیاں ہو چکی ہے کہ ہم نے سات سمندر پار والوں کی مسلسل غلامی کر کے نہ صرف یہ کہ آدھا ملک گنوا دیا بلکہ جو بچاہے اسے بھی ان گنت خطرات سے دوچار کر دیا ہے ۔ افسوس کہ ہم نے اپنے انتہائی قومی معاملات میں امریکی مداخلت کو ہی کامیابی کی ضمانت سمجھا ۔ قائد اعظمؒ کی رحلت کے ساتھ ہی ہمیں امریکی چنگل میں پھنسا دیا گیا ۔ یوں لگتا ہے فیصلہ کرنے کا اختیار ہی ہم سے چھین لیا گیا ہے۔ آر جی ایس ٹی جیسے خالص انتظامی اور مالی معاملات میں بھی امریکہ ہمیں سر عام ڈکٹیشن دے رہا ہے۔ ایک قومی اخبار کے کارٹونسٹ نے گذشتہ دنوں ایک کارٹون میں ہماری بے اختیاری کا خوب ماتم کیا ہے ۔ کارٹون کے نیچے کیپشن تھا ” ڈرو اس دن سے جب ہمارے دفتروں میں قائد اعظمؒ کی جگہ امریکی سفیر کی تصویر لٹک رہی ہو گی “ یہ چھوٹا سا جملہ ہمارے حکمرانوں کی پست ذہنیت کی مکمل ترجمانی کرتا ہے۔
گذشتہ دس برس سے ہم امریکہ کی جنگ میں جتے ہوئے ہیں۔ امریکی خوشنودی کے لئے پاکستان نے کیا کچھ نہیں کیا ۔ پانچ ہزار سول اور فوجی شہید ہو چکے ہیں ۔ شائد بیس ہزار کے لگ بھگ زخمی اور معذور ہو چکے ہوں ۔ ہزاروں سکول ، گھر ، دکانیں اور بازار ملیا میٹ ہو چکے ۔ خوف اور عدم تحفظ کے سبب باہر سے سرمایہ کاری تو دور کی بات مالدار پاکستانی اپنا پیسہ بیرون ممالک منتقل کر چکے ہیں۔ ہمیں بھوک ملی ہے ، بجلی کا بحران ملا ہے ، گیس کی طویل بندش ملی ہے اور ہم آج انتہا کے کرپٹ ممالک میں شمار کر دیے گئے ہیں ۔ حد تو یہ کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کو امریکی عدالت میں قتل کے مقدمے میں دھر لیا گیا ہے۔ صدر ابامہ نے ہماری خدمات کا یہ صلہ دیا ہے کہ ہمیں اپنے بچے کھچے قبائلی علاقوں میں بھی بم مارنے کا حکم سنا دیا ہے ۔فرانس ،جرمنی ،اور برطانیہ ہندوستان میں بیٹھ کر ہمیں دہشت گردوں کا سر پرست قرار دے چکے ہیں۔ ایران کو ہم نے ناراض کر رکھا ہے ۔ افغانستان کا عام شہری ہمارا نام سننے پر تیار نہیں ۔ امریکہ اب بلوچستان ہم سے جدا کرنا چاہتا ہے ۔یہ ہے دور پار کے رشتہ دا ر پر انحصار کرنے کا نتیجہ!
بھارت بھی ہمارا ہمسایہ ملک ہے ۔ لیکن چونکہ بھارت نا انصافی پر بضد ہے اس لیے اس کے معاملے میں دوستی انسانیت کے ساتھ دشمنی ہو گی ۔ لیکن ایران ، چین ، اور سنٹرل ایشیا کی مسلم ریاستیں ہماری ہمسائیہ مملکتیں ہیں ۔ ہم نے ایران کے ساتھ گیس معاہدہ کر تو لیا لیکن اب اس پر عمل درآمد کرنے پر تیار نہیں ۔ امریکی دباو¿ پر اب ہم ترکمانستان سے گیس لانے کی تیاریوں میں ہیں ۔ امریکی جانے ہیں کہ یہ پائپ لائن ہر وقت حملوں کی زد میں رہے گی اور شائد ہی کبھی مکمل طور پر تعمیر ہو سکے ۔
چین نے ہمیں 1971ءمیں مشورہ دیا کہ مشرقی پاکستان کے مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کی کوشش کریں لیکن ہم نے فوج کشی کو ہی آخری حل جانا ۔ ہمیں امریکہ نے ساتویں بحری بیڑے کا جھانسہ دیا تھا۔ ہم ملک گنوا بیٹھے لیکن اس دھوکہ باز امریکہ کے سامنے سجدہ ریز ہی رہے۔ کارگل کی مہم سے باز رہنے کی چین نے تلقین کی لیکن ہمارے فوجی حکمران اور اس کے ساتھ دینے والے جرنیلی ٹولے نے امریکہ کی خاموشی کو رضامندی سمجھا اور پاکستان کے کھاتے میںتاریخی شرمندگی لکھ دی ۔
کاش کہ ہم اب بھی سنبھل جائیں اور عہد کریں کہ ہم ان نا جائز رشتوں اور دور کے مکار رشتہ دارں کی بجائے چین اور ایران جیسے سچے ہمسایوں کی بات مانیں گے ۔