Feb
01
|
Click here to View Printed Statements
چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے نیشنل انشورنس کارپوریشن لمیٹڈ میں اربوں روپے کی کرپشن کے مقدمے کی سماعت کے دوران تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ کرپشن کو برداشت نہیں کریں گے چاہے اس میں کوئی بھی ملوث ہو۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بہت ہوچکا‘ تمام متعلقہ لوگوںکےلئے کھلا پیغام ہے کہ کرپشن کے مقدمات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ہم روزانہ کرپشن کے مقدمات سنتے سنتے تھک گئے ہیں۔ چوروں کو بچانے کیلئے چور اکٹھے ہوگئے ہیں ‘ہم سب کو بلائیں گے۔
عدالت عظمیٰ نے قومی اداروں میں مالی لوٹ کھسوٹ کے سدباب کے لئے از خود نوٹس لیتے ہوئے بڑے بڑے مالی سیکنڈلز کے خلاف مقدمات کی سماعت شروع کی تو پھر سکینڈل پر سکینڈل سامنے آنے شروع ہوگئے۔ حج سکینڈل‘سٹیل ملز سکینڈل‘ پلاٹ سکینڈل‘پنجاب بینک سکینڈل اور نہ جانے مالی بدعنوانی کے کتنے ہی سکینڈلزہیں جن کی سماعت ہورہی ہے اور کتنے ایسے کیسز ہیں جن کی ابھی باری نہیں آئی۔از خودنوٹس کی کوکھ سے جنم لینے والی کرپشن مکاﺅ مہم جو سوٹئزرلینڈ کی حکومت کو خط لکھنے کے احکامات سے شروع ہوئی تھی اب دور دور تک اس کے خاتمے کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔جو فائل کھلتی ہے جو صفحہ پلٹا جاتا ہے اس سے مالی کرپشن کی بھیانک وارداتیں چنگھاڑتی ہوئی منہ کو آتی ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ کے جس وفاقی وزیر کو وزارت سے علیحدہ کیا گیا اس نے ببانگ دہل فرمایا کہ ”سب سے بڑا کرپٹ شخص اس ملک کا وزیراعظم ہے۔“ عام لوگوں کے اندر تاثر یہ تھا کہ شائد اول درجہ صرف” مردحر“ کو حاصل ہے لیکن جے یو آئی کے سواتی صاحب نے ترتیب تبدیل کردی ہے۔خود جناب مولانا فضل الرحمن کی کرپشن کے بارے میں ان کی مخالف مذہبی جماعتوں کا تاثر بھی قابل توجہ ہے۔ جناب شہبازشریف کے بارے میں (ق) لیگ کے رہنما کرپشن کے دستاویزی ثبوت اخبارات کو جاری کرتے رہے ہیں اورا ن میں سے بعض الزامات ابھی تک ناقابل تردید چلے آرہے ہیں۔ چوہدریوں کی سرپرستی میں ہونے والی مالی بدعنوانی کی بازگشت سپریم کورٹ میں سنی جارہی ہے ۔ ایم کیو ایم کی بھتہ خوری کے واویلے عام ہیں جبکہ صوبہ سرحد میں اے این پی کی کرپشن کے سکینڈلز غیر ملکی اخبارات میں جلی سرخیوں کے ساتھ شائع ہوتے رہتے ہیں۔پیپلزپارٹی اور مالی بدعنوانی کے بارے میں حزب مخالف کو یقین محکم ہے کہ یہ دونوں ”اجناس“ باہم مربوط رہتی ہیں۔عمران خان کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ‘ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی تینوں کرپٹ پارٹیاں ہیں۔جماعت اسلامی کے بارے میں شائد مالی کرپشن کا کوئی کیس نہیں ہے لیکن ان کی ووٹ پاور اتنی ہے جتنی ان کے ممبران کی تعداد!۔ کوئی بڑی شخصیت ‘کوئی بڑا ادارہ ‘کوئی عسکری گروہ ۔ کوئی بھی ایسا نیک اور پاکدامن نہیں جس پر بدعنوانیوں کے الزامات نہ ہوں اورجو سپریم کورٹ کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی پارسائی کا اعلان کرسکے۔کرپشن کے حمام میں سب ننگے دکھائی دیتے ہیں۔یہ الگ بات کہ جناب مخدوم امین فہیم کے بقول ”کرپشن کی یہ سب کہانیاں سنی سنائی ہیں۔“
بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور وہاں کی سپریم کورٹ بھی اربوں کھربوں روپے کی کرپشن سامنے آئی ہے۔ اٹلی‘فرانس اور جاپان جیسے ملکوں کے حکمرانوں کے بارے میں آئے روز کرپشن کہانیاں چھپتی رہتی ہیں حد تو یہ ہے کہ ہمارے قبائلی علاقوں میں کام کرنے والی امریکن این جی اوز نے کئی ملین ڈالرز کی کرپشن کی ہے اوران کی کرپشن کو طشت ازبام کرنے کے لئے ہمارے ادارے نیب کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ یو ایس ایڈ کا پیسہ خود یو ایس اے والوں نے ہی کھالیا ہے۔افغانستان کے صدر اور ان کے بھائی کو عالمی سطح کا کرپٹ ترین جوڑا قرار دیا گیا ہے۔
ابن بطوطہ نے اپنی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ جب وہ ہندوستان کی سیاحت پر نکلے تو انہیں اس وقت ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں داخل ہونے کے لئے محافظوں کو رشوت دینا پڑتی تھی۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں مزید لکھا ہے کہ ہندوستان کے بادشاہ تحائف کی صورت میںر شوت قبول کرتے تھے اور بہت سے مصاحب اور وزراءشاہی دربار کے نام پر سرداروں اور ملاقاتیوں سے رشوت بٹور تے رہتے تھے۔
مالی بدعنوانی ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی ہے۔ کبھی اس کا لیول کم اور کبھی زیادہ ہوتا رہا ہے۔بدعنوانیوں کی روک تھام کے لئے شور اٹھتے رہے ہیں‘حکمران تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔احتساب عدالتیں بنتی رہی ہیں اور پکڑ دھکڑ جاری رہی ہے ۔ سیاسی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اگر عوام خوشحال ہوں اور ان کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوتی رہیں تو وہ حکمرانوں کی مالی و اخلاقی کرپشن سے لاتعلق رہتے ہیں لیکن جب عوام بھوک سے مر رہے ہوں تو پھر طبقہ امراءاور حکومتی اشرافیہ کے ٹھاٹھ باٹھ عوام کے زخموں پر تازیانوں کا سبب بنتے ہیں اور وہ بلبلا اٹھتے ہیں ۔ پاکستان آجکل ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے۔جب تک تقسیم زر کا کوئی منصفا نہ نظام سامنے نہیں لایا جاتا‘کرپشن کا گٹّر ابلتا ہی رہے گا اورچیف جسٹس اس گند کو دھوتے دھوتے تھک جائیں گے ۔وہ ایک چور کو پکڑیں گے تو دوسرا چور سامنے کھڑا ہوگا۔ بھوکوں کو قومی خزانے کے خالی ہونے یا بھرنے سے نہیں انہیںتو اپنے پیٹ کی آگ بجھانے سے غرض ہوتی ہے ! ورنہ تو‘
کوئی چھوٹا چور‘کوئی بڑا چور
اس دنیامیں سب چور ہی چور