Apr
04
|
Click here to View Printed Statements
جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ افواج پاکستان کے شائد واحد سپہ سالار ہوں گے جن کے پاس اقتدار سنبھالنے کا مکمل موقع تھا لیکن انہوں نے انتہائی قومی سوچ کا ثبوت دیتے ہوئے ملک کے اندر جمہوریت کو راستہ دیا۔ جنرل صاحب کو ان کی اسی جمہوری سوچ کی بدولت”جمہوری جرنیل“ بھی کہا جاتا ہے ۔دشمنوں کی نیندیں حرام کردینے والی فوجی مشقوں ”ضرب مومن“ کے خالق‘ صوبہ بہار کے علاقے اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے معزز مغل خاندان کے چشم وچراغ جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کے ساتھ اپنے کالم نگار دوست بیگ راج کے ہمراہ دو گھنٹے کی طویل نشست ہوئی جس میں جنرل صاحب نے نہ صرف اپنی سیاسی ناکامی کی وجوہات بیان کیں بلکہ پاکستان میں انقلاب کے خطرات سے آگاہ کیا۔ سیاست اور ریاست کے طالبعلموں کے لئے جنرل بیگ کے اس تجزیے میں روشنی کا سامان تو ہے ہی ‘ قارئین کیلئے بھی دلچسپی کا سبب ہوں گے۔”میں سیاست میں کیوں ناکام ہوا“جنرل صاحب نے گفتگو کے آغاز میں خود ہی سوال اٹھایا۔اورپھربتانے لگے کہ میں نے 1986ءسے 1996ءتک دس سال ”پاکستان عوامی قیادت“ کے پلیٹ فارم سے عوام کو بیدار کرنے کی سرتوڑ کوشش کی۔ پاکستان کے بیسیوں اضلاع میں گیا۔ لوگوں سے طویل بحثیں ہوئیں۔ اس دس برس کے عرصہ میں میں نے اپنے تمام جمع شدہ وسائل خرچ کردیئے۔ لیکن میرا مشاہدہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام اور حکمران طبقہ سوچ کے اعتبار سے ایک ہوچکے ہیں۔ لوگ اس وقت تک کسی سیاسی پارٹی یا رہنما کا ساتھ نہیں دیتے جب تک انہیں ساتھ دینے کے بدلے کسی ”حصول“ کا یقین نہ ہو۔ اسی طرح دولت مند اور مخیرحضرات اس وقت تک سرمایہ کاری نہیں کرتے جب تک اس سرمائے کے عوض ان کو اپنا سرمایہ پڑھنے کا یقین نہ ہو۔ لہٰذا پاکستانی عوام اور ووٹر کسی انقلاب یا بڑی تبدیلی کے خواہش مند نہیںہیںبلکہ وہ فوری فائدے کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں بالکل حکمران طبقے کی طرح جو اپنے وقتی فائدے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے اور ٹوٹتے ہیں ۔لہٰذا کسی جوہری تبدیلی کے لئے پاکستان کے اندر کوئی انقلاب برپا نہیں ہوسکتا۔
فرض کیا کہ معاشرے کا کچھ حصہ بہت خلوص کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور عوام کو وقتی طور پر جذباتی کرکے اپنے ساتھ ملا کر انقلاب نما تبدیلی لے آتا ہے یعنی موجودہ سسٹم کو لپیٹ کر اس کی جگہ کوئی اور سسٹم لے آتا ہے تو یہ ملک حصوں میں بٹ جائے گا۔
قومی وحدت کی بنیادیں بہت ہی کمزور ہوچکی ہیں۔ اسلام ہماری قومی وحدت کی بنیاد تھی لیکن عوام اور حکمران طبقہ کا ستر سے اسی فیصد حصہ اسلام کے بنیادی تقاضے نبھانے پر آمادہ ہی نہیں۔اگر سماجی انصاف اور انسانی برابری کا اسلامی تقاضا پورا کیا جاتا تو ہمارے مسلمان بنگالی بھائی ہم سے جدا نہ ہوتے۔ چونکہ اسلام ہماری وحدت کا واحد ذریعہ نہیں رہا۔ اس لئے اب اگر کوئی انقلاب آتا ہے تو ہماری قومی وحدت کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ قومی وحدت سے متضاد ہمارے معاشرے میں صوبائی تعصبات بہت مضبوط ہوچکے ہیں۔قیام پاکستان کے بعد وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے علاقائی سوچ کو پورے شدومد سے ابھارا ہے۔ سندھ‘بلوچستان‘شمالی پنجاب‘ہزارہ صوبہ اورخیبر پختونخواہ میں سب نعرے اور گروہ قومیتوں کے حقوق کے نام پرانتشار کا شکار ہوجائیں گے۔ علیحدگی کی مزید خطرناک تحریکیں شروع ہوسکتی ہیں ۔ ان لوگوں کے بیرونی طاقتوں کے ساتھ مضبوط روابط ہیں۔لہٰذا اگر مشرق وسطیٰ کی طرح پاکستان میں کوئی انقلاب آتا ہے تو یہ جغرافیائی وحدت کے لئے زہر قاتل ثابت ہوگا۔
پاکستانی عوام کے پاس دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ ڈیڑھ برس مزید انتظار کریں اور آئندہ الیکشن میں سوچ سمجھ کر حصہ لیں۔انتخابات کا سلسلہ چلنے دیا جائے اور ہر انتخابات میں تھوڑی بہت اصلاح کو ٹارگٹ رکھا جائے۔مجھے یقین ہے کہ ضیاءالحق اور مشرف جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ نہ بنتے تو آج ہمارا جمہوری نظام بڑی حد تک شفاف ہوچکا ہوتا۔ عوام بھی بالغ النظر ہو کر وقتی اور فوری ”حصول“ کی بجائے اعلیٰ ترین قومی مقاصد کو اپنا پہلا اور آخری مطالبہ قرار دے چکے ہوتے۔ پاکستانی عوام کے پاس دوسرا راستہ یہ ہے کہ انقلاب کا نعرہ لگانے والوں کے پیچھے چل پڑیں اور پاکستان کو نہ ختم ہونے والے خطرات سے دوچار کردیں۔انقلاب لانا تو شائد ممکن ہوجائے لیکن انقلاب کو سنبھالنا ناممکن ہوجائے گا۔انقلاب کی راہ پر چلنے والے رہبروں کو جنرل اسلم بیگ کے ان خیالات کو مدنظر رکھناہوگا!