May
28
|
Click here to View Printed Statements
تنقید برائے تنقید نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے آئندہ امریکی امداد نہ لینے کا اعلان کرکے صرف صوبہ پنجاب ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے غیور عوام کے دلوں کی ترجمانی کردی ہے۔ہوسکتا ہے کہ ”سستی روٹی سکیم“ اور ”دانش سکولوں“ کے قیام کی طرح جناب شہباز شریف کا یہ اعلان بھی محض اپنے بکھرتے ہوئے ووٹ بینک کو متحد رکھنے کی کوشش ہو لیکن نتیجہ جو بھی نکلے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں غیر ملکی امداد سے چھٹکارے کا یہ تصور اس قدر خوش آئند ہے کہ شریف برادران کی داد و تحسین کئے بغیر رہا نہیں جاسکتا۔ یوں تو ”قرض اتارو ملک سنوارو مہم“ بھی معاشی خودمختاری کے حصول کی خواہش کے تابع ایک کوشش تھی لیکن تمام ترغیبات کے باوجود بھی قرض اتارنے کے لئے رقم جمع نہ ہوسکی اور جو رقم جمع ہوئی وہ شائد اس قابل بھی نہیں تھی کہ اس کا ذکر کوئی حوالہ بن سکتا۔اگر صرف صوبہ پنجاب ہی غیر ملکی امداد کی ضرورت سے ماوراءہوجائے تو سمجھیں کہ پاکستان کے ساٹھ فیصد عوام خود دار کہلانے کے مستحق ضرور پائیں گے۔پنجاب حکومت کے میر منشی اب کس طرح کا بجٹ بنائیں گے اور اپنے خساروں کو کیسے پورا کریں گے‘ یہ آنے والے دنوں میں واضح ہوجائے گا۔ہم ہر روز قومی خودمختاری کی تسبیح پڑھتے ہیں اور امریکیوں سے پرزور مطالبے ہوتے ہیں کہ وہ ہماری قومی خودمختاری کا احترام کرےں لیکن آگے سے جواب ڈرون حملوں کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ امریکی کانگریس میں بعض سینٹر تو اس قدر منہ پھٹ ہیں کہ وہ ہمارے اس مطالبے کا سرعام مذاق اڑاتے ہیں۔آج کل امریکی حلقوں‘اخبارات اور دانش کدوں میں پاکستان اور پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادتوں کے خوب لتے ّ لئے جارہے ہیں۔”جب ہم ڈالرز دے رہے ہیں تو پھر یہ قومی خودمختاری کہاں سے آگئی؟“ اکثر امریکیوں کا یہی جواب ہے۔پاکستان کے اپنے اقتصادی اعدادوشمار سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان نے امریکی جنگ میں اب تک 70ارب ڈالرز کا نقصان اٹھایا ہے جبکہ پاکستان کو فوجی اور ترقیاتی مد میں صرف بیس ارب ڈالرز ملے ہیں۔چالیس ہزار پاکستانیوں کی زندگیوں کا خون بہا طے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ستر نہیں ایک سو ستر ارب ڈالرز کا مالی نقصان اور کھربوں ڈالر کی جگ ہنسائی حصے میں آئی ہے۔
میں نے بڑے بڑے اقتصادی ماہرین سے یہ سوال پوچھا ہے کہ پاکستان کس طرح ایک خودمختار اور آزاد ملک بن سکتا ہے۔ سب کا متفقہ جواب یہ ہے کہ آپ آج امریکی امداد لینا بند کردیں‘کل سے خودمختاری واپس مل جائے گی۔ لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ ہمارے عسکری اور سیاسی قائدین امریکی امداد کی بندش کا سوچ کر ہی کپکپانے لگتے ہیں ۔ وہ تمام تر قومی غیرت اور ملی حمیت کو طاق نسیاں پر رکھ کر دست بستہ ہیلری کلنٹن کے حضور گڑگڑانے لگتے ہیں۔گزشتہ پچاس برسوں میں ملنے والی امریکی امداد کا تجزیہ کیاجائے تو یہ خوفناک حقیقت سامنے آئے گی کہ امداد کا ستر فیصد حصہ فوجی مقاصد اور تیس فیصد حصہ سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہوا ہے۔اسلحہ خریدا گیا اور ایسی تمام خریداریوں میں کمیشن مافیا پروان چڑھا ہے۔عوامی بہبود کے نام پر بھی جو امداد ملی وہ چند گھرانوں میں بانٹ لی گئی یا پھر سیاسی رشوت کے طور پر خرچ ہوگئی۔آج بھی کیری لوگر بل کے تحت ملنے میں امداد کا ایک کثیر حصہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ریوڑیوں کی صورت میں بانٹا جارہا ہے۔ نہ کسی بے روزگار کو روزگار ملا اور نہ ہی کوئی گھرانہ معاشی طور پر خودانحصاری کی منزل کوپا سکا۔ خیرات دست بدست بانٹی جائے یا کریڈٹ کارڈ کے ذریعے دی جائے کبھی بھی مانگنے والوں کی قسمت بدل نہیں سکی البتہ پروپیگنڈا کے طور پر وقتی فوائد ضرور مل جایا کرتے ہیں۔
میاں شہبازشریف کے اس معاشی تجزئے سے مکمل اتفاق ہے کہ غیر ملکی امداد صرف اشرافیہ کے کام آئی ہے عام آدمی کی حالت کبھی نہیں بدل سکی۔خود امریکی تجزیہ کاروں کے نزدیک امریکی امداد نے پاکستان کے معاشی استحکام میں دو فیصد بھی بہتری پیدا نہیں کی۔ایسی صورتحال میںپنجاب حکومت کا یہ نعرہ بہرحال تازہ ہوا کا جھونکا ہے اور اس اعلان کی اصل زد امریکی چالبازیوں پر پڑتی ہے۔امریکی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ننانوے فیصد پاکستانیوں کی نفرت میں کمی نہیں کرسکے۔پنجاب حکومت کے اس اعلان نے عوام کو امریکی امداد کے بند ہونے کے مبینہ خطرناک نتائج سے بالاتر کردیا ہے۔اگر یہ رسم چل نکلی تو بہت ممکن ہے کہ باقی صوبوں میںیہ سوچ باقاعدہ عوامی مطالبہ بن کرسامنے آئے کہ امریکی امداد لینا بند کرو ورنہ ہم ووٹ نہیں دیں گے۔اگر پنجاب بغیر امداد کے زندہ رہ سکتا ہے تو پھردوسرے صوبوں کے غیور لوگ اور ہزارے آخر خودمختاری اور عزت والی زندگی کیوں نہیں گزار سکتے؟
میاں شہبازشریف اپنے اس اعلان کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے گرما گرم تقاریر فرما رہے ہیں۔میاں چنوں میں ایک جلسہ سے خطاب کے دوران انہوں نے جنگ خندق کے حوالے سے اپنے اعلان کو تقویت دی ہے۔”حکومت پیٹ پر تین پتھر باندھے گی آپ صرف ایک باندھیں اور اپنے ملک کو غیر ملکی حملوں سے بچائیں“۔اگر چھوٹے اور بڑے میاںصاحبان علامتی طورپر ہی سہی اپنے حفاظتی سکواڈ اور اپنے روزمرّہ کے اخراجات میں 25فیصد کمی کردیں تو لوگ شائد بجلی اور گیس کے مطالبے سے ہی دستبردار ہوجائیں۔ جنگ خندق کے موقع پر ہمارے پیارے رسول نے اپنے پیٹ پر واقعتا پتھر باندھ رکھے تھے۔اس لئے اصحابہ اکرامؓ بھوک کی حالت میں بھی حفاظتی خندق کھودنے میں کامیاب ہوگئے۔ آج بھی ہمارے لیڈر اگر واقعتا خود مثال بنیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی قومی خودمختاری اور ملی غیرت کے مضبوط ارادوں کی حفاظتی خندق کھودنے میں کامیاب ہوجائیں‘ اقبال نے سچ فرمایا‘
اے طائر لاہوتی‘اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی