Jun
09
|
Views of Dr Murtaza Mughal on Chaudhry Shujaat
Click here to View Printed Statements
کریڈٹ دیا جانا چاہیے۔ذاتی پسند وناپسند کی بنیاد پر کسی پارٹی یا شخص کے اچھے اقدام کو ناقابل ذکر ٹھہرا دینا دانشمندانہ بخیلی کہلائے گی۔افسوس کے ذرائع ابلاغ کے غالب حصے نے چوہدری شجاعت کے قومی نوعیت کے فیصلوں پر مسلسل بخیلی بلکہ بعض اوقات کمینگی کا مظاہرہ کیا ہے۔مفادات کس کے نہیں ہوتے؟۔سیاست کا مقصد ہی اقتدار تک پہنچنا اور اپنے سیاسی فلسفے کے مطابق مملکت کے معاملات کو چلانا ہوتا ہے۔اگر چوہدری برادران نے پی پی پی کے ساتھ اتحاد کیا ہے اور حکومت کا حصہ بن گئے ہیں تو انہوں نے ایسا کونسا جرم کیا ہے جس سے باقی ”فرشتہ سیرت“سیاسی پارٹیاں مبّرا ہیں۔محرومین اقتدار کا پرابلم بھی اقتدار ہے اسی لئے وہ اہل اقتدار کیخلاف ”ذاتی مفادات“ کا ڈھنڈورا پیٹتے تھکتے نہیں۔ذاتی اور قومی مفادات بھی عجیب گورکھ دھندا بنا دیئے گئے ہیں۔”ذاتی مفادات“ ایک ایسی اصطلاع ہے جو ایوان اقتدار سے باہر بیٹھے امیدوارانِ اقتدار پر بھی پوری طرح ”فٹ“آسکتی ہے اور ”قومی مفادات“ ایک ایسا رویہّ ہے جو اقتدار میں رہتے ہوئے بھی اپنایا جاسکتا ہے۔سارا معاملہ نیتوّں کا ہے۔ٹی وی پروگراموںمیں کھپ ڈالنے سے نیتوں کے فتور دور نہیں کئے جاسکتے!آج یہ راز کھل کر عیاں ہوگیا کہ پرویز مشرف کے دور میں اہم ترین قومی امورپر فیصلہ کرتے وقت مسلم لیگ قائداعظم کی قیادت نے مشرف کو ذاتی ایجنڈے کی خاطر قومی مفادات کا سودا کرنے سے بار بار روکا تھا۔ پرویز مشرف کو اگر کسی کا خوف تھا تو وہ چوہدری برادران تھے۔چوہدری شجاعت اپنے مخصوص پنجابی انداز میںمشرف کی پالیسیوںکیخلاف قوم کی ترجمانی کردیا کرتے تھے۔ جب پرویز مشرف بھارت سے جنگ میں پہل نہ کرنے کا اعلان کر رہے تھے تو چوہدری شجاعت حسین نے ببانگ دہل کہہ دیا تھا”یہ ایٹم بم ہم نے شب برات پر چلانے کے لئے نہیں رکھا ہوا“ اس ایک بیان سے بھارت کو آج تک ”سرجیکل سٹرائک“ کی جرات نہیں ہوئی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ خود ڈاکٹر صاحب نے بتادیا ہے کہ ان کو امریکہ بھجوانے کے لئے سی۔130 طیارہ چکلالہ ایئر بیس پر تیار کھڑا تھا۔ جناب وزیراعظم جمالی نے اس آرڈر پر دستخط نہیں کئے اور ظاہر ہے کہ جناب جمالی نے دستخط نہ کرنے سے پہلے چوہدری برادران سے سیاسی قوت حاصل کی ہوگی۔بعض پس پردہ معاملات ایسے ہیں جن پر خود چوہدری برادران محض قومی مفادات کی خاطر آج بھی لب کشائی نہیں کرتے۔ یہ ان کی بڑائی ہے۔چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین کی تربیت چوہدری ظہور الٰہی مرحوم نے ایسی ہی ٹھوس بنیادوں پر کی تھی۔
اس میں کیا شک ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کے دور حکومت میں پنجاب نے ترقی و خوشحالی کی نئی منازل طے کی تھیں۔آج جب ریسکیو 1122 کی برق رفتار ایمبولینسز آفت اور مصیبت میں گھرے پاکستانیوں کے لئے رحمت بن کر نمودار ہوتی ہیں تو چوہدری پرویز الٰہی کے انداز حکمرانی اورعوام دوستی کا تاثر مزید پختہ ہوجاتا ہے۔پنجاب کا وہ کون سا کھیت اور کھلیان ہے جہاں پکی سڑک نہیں پہنچی‘ وہ کون سی حویلی اور بیٹھک ہے جہاں بجلی نہیں جگمگائی‘دور دراز کے دیہاتوں تک گیس کے پائپ بچھا دیئے گئے۔پنجاب کے جن دیہاتوں میں بارش کے بعد گلیاں جوہڑوں کی شکل اختیار کر لیتی تھیں آج کھیت مزدور سے لیکر بابو تک ہر کوئی اپنی گلیوں سے گزر کر خشک پاﺅں لئے اپنے گھر کے کچے آنگن تک پہنچ جاتا ہے۔
پاکستان پر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کی تاریخ سے لیکر آج تک نت نئے حملے ہورہے ہیں۔اسامہ بن لادن کی مبینہ ہلاکت کے بعد امریکہ نے اس مملکت خدادا کی مشکیں کسنا شروع کردی تھیں۔ بہت ممکن تھا کہ پی پی پی کی حکومت تنہائی کا شکار ہو کر امریکہ کے سامنے مکمل طور پر سرنڈر کر جاتی اور آئی ایس آئی‘آرمی یا کسی اور قومی ادارے کو بہت سا نقصان پہنچ جاتا۔یہ بھی ممکن تھا کہ حکومت اکثریت سے محروم ہوتی اور پارلیمنٹ اور جمہوریت کا ایک بار پھر بوریابستر لپیٹ دیا جاتا۔ ٹھیک اس وقت جب پاکستان مخالف لابیاں اس انتظار میں تھیں کہ عددی کمتری کا شکارگیلانی حکومت پر ضرب کاری لگا دی جائے اور حکومت اور معاشرہ کو کسی نئے بحران کا شکارکردیا جائے گا‘چوہدری برادران نے تمام تر طعنوں اور تبصروں سے بالاتر ہو کر حکومت میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔دو مئی کو پاکستان خارجی اور عسکری لحاظ سے انتہائی کمزور تھا اور اندرون ملک اور بیرون ملک ذرائع ابلاغ پاکستان کو ناکام ریاست کے طور پر پینٹ کر رہے تھے۔ اس وقت چوہدری برادران کے بظاہر”نان پاپولر“ فیصلے نے پاکستان کو کسی مزید سیاسی بحران سے دوچار ہونے سے بچا لیا۔ نفسیاتی طور پر ٹوٹا اور بکھرا ہوا پاکستان سیاسی اورجمہوری طور پر مستحکم دکھائی دیا۔
بجٹ 2011ءپیش ہوچکا ہے اور ایک سچ یہ بھی ہے کہ ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فیصد اضافے کا فیصلہ چوہدری برادران کے سیاسی دباﺅ پر ہی کیا گیا ہے۔ بجٹ عوام دوست ہے یا نہیں لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس بجٹ کے اندر کم ازکم عوام دشمنی والا کوئی تاثر سامنے نہیں آیا۔ لوگوںنے بہت باتیں بنائیں کہ (ق) لیگ اور پی پی پی کا اتحاد دراصل چوہدری مونس الٰہی کو بچانے کے لئے سیاسی سودا بازی ہے۔چوہدری مونس الٰہی آج بھی عدالتوںمیں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔سیاسی طور پر بنائے گئے اس سکینڈل کا فیصلہ پنجاب کی عدالتوںمیں زیر سماعت ہے اور فیصلہ میرٹ پر ہونا ہے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ مونس کا دامن صاف تھا اور رہے گا۔
سیاسی لحاظ سے آج کا مستحکم پاکستان دراصل چوہدری برادران کی سیاسی بصیرت کے مرہون منت ہے۔اس سیاسی استحکام کو چوہدریوں کے نام سے منسوب کیا جانا چاہیے۔