Aug
04
|
Click here to View Printed Statements
جہاں روزانہ لاشیں گرتی ہوں‘خون بہتا ہو‘گولیاں سنسنا تی ہوں‘آگ بھڑکتی ہو اور آرزوئیں جلتی ہوں ‘وہاں کے رہنے والے کس ذہنی کرب سے گزرتے ہوں گے اس کا اندازہ لاہور اورا سلام آباد میں بیٹھنے والوں کو بمشکل ہی ہوگا۔مائیں اپنے بچوں کو امام ضامن باندھ کر باہر نکالتی ہیں کہ کہیں رقص کرتی موت ان کے لختِ جگر نور نظر کو اچک کر نہ لے جائے۔قاتل کے نزدیک کوئی تفریق نہیں۔عورت‘مرد‘بچہ‘بوڑھا‘مالک‘مزدور‘پٹھان‘مہاجر‘پنجابی‘ بنگالی سب گولی کے سامنے بے بس ۔کسی کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہی۔عالم اور جاہل‘ہوش مند اور بے ہوش سب ایک ہی خوف میں مبتلا ہوگئے ہیں۔اچانک گولی پار ہوجانے کا خوف۔کٹی پہاڑی پر سرکٹے‘کورنگی میں لہورنگ بکھرا‘لیاری میں خون کے بیوپاری دھاڑے‘دھوبی گھاٹ میں گھات لگی‘شیرشاہ میں شاہ بھی کٹے‘شیر بھی ڈھیر ہوئے۔کون سا علاقہ‘کونسا گوشہ ہے جہاں انسانی خون کی بدبو نہیں سونگھی جاسکتی۔ قاتل کون‘مقتول کون۔مرنے اور مارنے والے سب کراچی کے ہیں۔سب مسلمان بھی ہیں اور سب روزے دار بھی ہیں۔گولی کہاں سے آئی کراچی کے کسی محلے سے‘گولی کہاں گئی کراچی کے دوسرے محلے میں۔ مارنے والے ”انقلاب“ کے نعرے لگاتے ہیں‘مرنے والوں کے جنازے پڑھانے والے”انقلاب“ کے نعرے لگاتے ہیں۔کہا گیا کوئی خفیہ ہاتھ ہے۔کوئی غیر ملکی طاقت ہے لیکن زمینی حقائق بالکل مختلف نکلے ہیں۔سب کچھ اندرونی ہے۔ٹریگر پر آئی ہوئی انگلی‘کندھے پر رکھی ہوئی بندوق‘کندھا اور وہ سینہ جس میں اس گولی نے اتر جانا ہے۔سب یہیں کا ہے‘سب اردو بولتے ہیں‘سب پاکستانی ہیں‘سب منی پاکستان کے باسی ہیں۔امن ریلیاں ہوچکیں‘نائن زیرو‘بلاول ہاﺅس‘گورنر ہاﺅس‘وزیراعلیٰ ہاﺅس سمیت کونسا مقام ہے جہاں کراچی کو پرامن بنانے کے عہد و پیماں نہیں باندھے گئے۔لیکن درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔آخر کونسا آسیب ہے‘کونسا دیو ہے جو ہمارے پیارے کراچی‘غریب پرور کراچی‘پہلے دارالحکومت‘ چمنیوں کے شہر کراچی کو پھر سے دبوچ لیتا ہے۔پھر خونخواروں کے پٹے کھول دیتا ہے!!کبھی بھارت کے شہر ممبئی میں ظلم کی ایسی ہی رات طاری رہتی تھی۔وہاں کی پولیس کو بااختیار اور باصلاحیت بنایا گیا اور ممبئی بہت حد تک پرامن ہوگیا۔آج ممبئی اس خطے کا معاشی مرکز بن چکا ہے۔لیکن کراچی جس نے سب پر کرم کیا آج خود رحم کی بھیک مانگ رہا ہے۔شہری محصور‘کاروبارمسدود!یہ کیسی سیاست ہے جو اپنے ماننے والوں کو خوف دیتی ہے۔خون آشام شامیں اور لہو بار صبحیں دیتی ہے۔انسان ہی زندہ نہیں رہیں گے تو حکمرانی قبرستانوں پر کروگے؟جناب آصف علی زرداری نے تمام تر قومی سطح کی مصروفیات ترک کرکے کئی روز کراچی میں لگی آگ بجھانے کی تدبیریں کیں۔رحمان ملک لپکتی آگ میں کود جانے والا وزیرداخلہ متحرک ومتفکر پھر رہا ہے۔ برق رفتاری کے ساتھ کراچی کے دورے کئے‘رات بھر جاگ کر شہر کے حساس علاقوں کی صورتحال کا مشاہدہ کیا۔مسلح گروہوں اور قاتل گینگ تک پہنچ جانے کے انکشافات بھی کئے لیکن قتل گاہیں جوں کی توں سجی ہیں۔فیصل رضا عابدی فعال ہیں لیکن کراچی میں ہونے والی قتل وغارت گری پر انتہائی مغموم۔کراچی پردکھ اور غم کی چادر تنی ہے اور سمندر کی وسعتیں بھی اس الم کو سنبھال نہیں پا رہیں۔باوسیلہ لوگ کراچی کو خیرآباد کہہ کر پنجاب اور اندرون سندھ کا رخ کر رہے ہیں۔ راقم خود بھی تواتر کے ساتھ اس بدنصیب شہر میں جاتا رہتا ہے۔خوشحال لوگ یا تو بیرون ملک جاتے ہیں یا انہوں نے اندرون ملک کوئی پناہ گاہ تلاش کر لی ہے۔اگراہل اقتدارگروہ قتل وغارت کو روکنے کو اپنا مذہبی اور دینی فریضہ بھی سمجھ لیں تو شائد ان کے اعمال میں برکت پڑ جائے۔ماہ صیام میں یہ مسئلہ باآسانی حل ہوسکتا ہے بشرطیکہ اس خون خرابے سے وابستہ ہر انسان اپنے قلب میں جھانکے اور قرآن و احادیث پر مبنی درج ذیل نکات پر عمل پیرا ہوجائے‘اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں‘جس نے ایک مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کیا۔ اس کی سزا جہنم ہے۔ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہے گا۔اللہ کا غضب اس پر بھڑکے گا۔اللہ ایسے شخص پر لعنت فرمائیں گے اور اس کے لئے دردناک عذاب تیار کر رکھا گیا ہے۔(القرآن)اور خطبہ وداع میں حضور نے ایک مسلمان کی جان‘ مال ‘عزت و آبرو کو دوسرے مسلمان کیلئے حرام قرار دیا تھا۔