Nov
23
|
Click here to View Printed Statements
کہا جاتا ہے کہ دور جاہلیت میں عورت اللہ تعالیٰ کی مظلوم مخلوق تھی۔معاشرے میں اسے سخت حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔طرح طرح کے توہمات اس کی ذات کے ساتھ وابستہ کئے جاتے تھے۔گھروں میں باندیوں سے بدترسلوک اس کا مقدر تھاسوسائٹی میں رائے مشورے اور تنقید واحتساب کا حق اسے قطعاً نہ تھا۔ بیویوں کی تعداد پر کوئی پابندی عائد نہ تھی۔وراثت میں بھی اس کا کوئی حصہ نہ تھا۔زندگی کے کسی شعبے میں بھی اس کی شہادت قابل قبول نہ تھی۔حد تو یہ ہے کہ پیدا ہوتے ہی عورت کو زندہ قبر میں گاڑھ دیا جاتا تھا۔
آج کا دور دور جاہلیت نہیں بلکہ دور تہذیب وترقی کہلاتا ہے۔یہ اندھیروں کا نہیں روشنیوں کا زمانہ ہے۔ حقوق کی پامالی نہیں بلکہ حقوق کی تحصیل و بحالی آج کا موضوع بحث ہے‘غلامی کا دور ختم ہوا‘اب آزادی کا زمانہ ہے۔عورت اب ملکی انتخابات میں حصہ لے سکتی ہے‘ووٹ دے سکتی ہے‘اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتی ہے‘چھوٹے سے چھوٹے دفتر سے لے کر بڑے سے بڑے کارخانوں اور فیکٹریوں تک کے دروازے اس کے لئے کھلے ہیں۔شہادت ‘رائے مشورہ‘تنقید‘احتساب اور وراثت کے تمام حقوق اسے آج آئینی طور پر حاصل ہیں۔کھیل کود کے میدان میں بھی اسے اپنے جوہر دکھانے کی آزادی حاصل ہے۔ یہاں تک کہ بعض ملکوں کی سربراہی بھی اسے عملاً حاصل ہے‘ لیکن افسوس مجموعی طور پر عورت جتنی مظلوم کل تھی اتنی ہی آج بھی ہے۔ اس کے لئے دور جاہلیت ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔آج کی آزادی کئی غلامیوں کو اپنے جلو میں لے آئی ہے۔اس وقت بھی اس کے حقوق بحال کم اور ماپال زیادہ کئے جارہے ہیں۔آخرت سے بے خوف والدین کل بھی اپنی بیٹیوں کو جائیداد میں شرعی حصے سے محروم رکھتے تھے اور آج بھی محروم رکھتے ہیں۔پہلے کی طرح آج کل بھی اس کی پیدائش پر ناخوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور سب سے بڑا ظلم اس دور میں جو پر روا رکھا جاتا ہے وہ ہے اس کی تجارت کے فروغ کے لئے بے دریغ استعمال۔میری نظر میں یہ ظلم ایک ایسا ظلم ہے کہ جس نے موجودہ زمانے کی نام نہاد آزادیوں‘مراعات‘حقوق ہمدردیوں کو قطعاً بے معنی بنا کر رکھ دیا ہے۔جب میں کسی دکان پر شوگرل یا شاپ گرل کو جوتے یا کپڑے بیچتے ہوئے دیکھتا ہوں تو اس کی مظلومی پر آبدیدہ ہوجاتا ہوں۔یہ عورت کے جسمانی حسن اور اس کی نسوانی کشش کا کھلا استحصال ہے۔یہ عہدہ اسے اس اخلاقی بنیاد پر نہیں ملتا کہ وہ بیروزگار ہے یا معاشی طور پر بے یارومددگار ہے یا یہی سہی کہ تعلیم اس عہدہ سے متعلق ہے بلکہ محض اس تجارتی بناءپر ملتا ہے کہ اس کی موجودگی گاہکوں کی کشش کا باعث بنے گی اور اس طرح مالکان کی دکان چمکے گی۔عورت کا وہ مقدس جسم کہ جو سوائے شوہر کے کسی دوسرے شخص کے سامنے بے لباس نہیں کیاجاسکتا اور جس کو چھونے کی یہاں تک حرمت ہے کہ عورت اپنے جسم کو چھونے والے یا چھونے کی کوشش کرنے والے مرد کو قانوناً ہلاک کرسکتی ہے۔آج اسے بلاتامل فلمی سکرین پر نیم برہنہ کیا جارہا ہے اور محض چند سکوں کا لالچ دے کر اس سے وہ تمام کردار کروائے جارہے ہیں جو عورت عام حالات میں کبھی برداشت نہیں کرسکتی ناقص کہانی‘بے کیف مکالموں‘گھسی پٹی موسیقی اور بے روح منظر نامے جیسے عیوب پر عورت کے جسم کا پردہ ڈالاجارہا ہے‘ فلم میں جو کچھ عورت آج کرتی ہے وہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ اور اس کی حیات کی سب سے بڑی غلامی ہے۔آج نئی تہذیب کے جدید تقاضوں نے عورت کی نیم برہنہ تصویر کو ہر بوتل‘ڈبے‘پیکٹ‘اخبار ‘رسالہ اور کتاب کے اوراق پر ناگزیر بنا دیا ہے۔یہ عورت کی نسائیت اور اس کی عظمت کے تقدس کی ہر طرح کھلی پامالی ہے‘صنعت کار خواہ سائیکل‘سکوٹر اور کار سے متعلق ہو یا اس کا تعلق ادویات‘جفت سازی اور پان بیڑی سگریٹ فروخت کرنے والے ادارے سے ہو وہ اپنی صنعت اور تجارت کے لئے عورت کے نیم برہنہ جسم کو استعمال کرنا اپنے لئے فرض تصور کرتا ہے۔اگر پنسل ‘دوات‘کاپی وغیرہ عمدہ کوالٹی کی ہے تو اس پرکسی عمدہ نوجوان حسین وجمیل خاتون کی تصویر طبع ہونا ضروری ہے۔یہ سب کچھ عورت کی تذلیل اور اس کی سخت توہین ہے۔عورت کے معاشرتی کردار میں تقدس اور پاکیزگی کو ملحوظ رکھا جائے۔ اس کا جسم تجارتی مقاصد کی خاطر تخلیق نہیں کیا گیاہے۔قدرت نے عورت میں شرم و حیا کے احساسات مٹنے اور مٹانے کے لئے نہیں پیدا فرمائے بلکہ قدرت نے ان کی تخلیق کے ذریعہ عورت کی عفت مابی کا سامان فراہم کیا ہے جو روزی کا لالچ دے کر عورت کو اس کی فطری شرم وحیا سے محروم کرتا ہے یا اس کی شان سے گرے ہوئے امور کی انجام دہی کے لئے بروئے کار لاتا ہے ‘وہ عورت کا سب سے بڑا دشمن ہے ‘ اسے جلد یا بدیرمٹنا ہی چاہئے اورا س کی جگہ ایک صالح اور عورت دوست معاشرے قائم ہونا چاہیے۔عورت ماں ‘بہن‘بیٹی ‘ بہو اور بیوی کی حیثیت سے جس احترام کا حق رکھتی ہے ”میل ڈامیننٹ“معاشرے کو وہ حق اسے دینا ہوگا ورنہ ہماری اگلی نسل ہمیں معاف نہیں کرے گی۔