Jan
24
|
Click here to View Printed Statements
پاکستانی قوم ایک بار پھر مایوسی کی اندھیری کوٹھڑی میں بند ہوگئی ہے۔ سوال اب یہ رہا ہی نہیں کہ سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں رکھا لوٹ مار کا پیسہ واپس آئے گا یا نہیں‘ اس سے کہیں خطرناک سوالات سانپ بن کر عوام کو ڈس رہے ہیں۔عام آدمی اگر گاڑی کا ویل کپ چوری کرے تو کئی کئی برس جیل میں گلتا سڑتا رہتا ہے۔ دیہاتوں میں اگر چوری چھپے کماد کی فصل سے کوئی گنا توڑلے تو تھانے میں ہی اس کا ٹرائل شروع ہوجاتا ہے۔جیب کترے عبرتناک انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن اس ملک میں انصاف کا یہ کیسا نظام رائج ہے
کہ ایک شخص پر اربوں روپے لوٹنے کے الزامات لگے‘اس نے کبھی ان پیسوںکی موجودگی سے انکار بھی نہیں کیا‘سوئٹزرلینڈ کے جج نے سزا بھی سنائی لیکن پاکستان کی عدالتیں‘تحقیقاتی ادارے اور منی لانڈرنگ کے ماہرین مل کر بھی اس شخص کیخلاف کچھ ثابت نہ کرسکے اور الٹا وہی شخص ”پاکستانی نیلسن منڈیلا“ بن کر مملکت پاکستان کے سب سے اعلیٰ عہدے پر فائر ہوگیا۔این آر او کے تحت تمام مقدمات سے بری ہونے والے اسی شخص کو انصاف کے واسطے دینے والے میاں محمد نوازشریف نے اپنا بھائی قرار دیا۔تمام مقدمات کو ”سیاسی“ کہہ کر میثاق جمہوریت پر مہر لگائی۔ اسی ”کرپٹ“ کو صدر بنوایا‘اسی ”کرپٹ“ کے ساتھ معاہدے کئے۔این۔آر۔او جیسے شرمناک معاہدے کرانے والا امریکہ ہے‘ جو خود کو انسانی حقوق اور ٹرانسپئرنسی کا سب سے بڑا چیمپن قرار دیتا ہے۔کیا دوغلے چہرے ہیں‘کونڈلیزا رائس ہی ”کلموہی“ نہیں یہاں تو ہر کسی نے مفادات کی سیاہی میں چہرے چھپا رکھے ہیں۔اندازہ کیجیئے کہ واجد شمس الحسن نے اپنی نگرانی میں سوئٹزرلینڈ کی عدالت سے جناب زرداری کیخلاف ثبوتوں کا تمام ریکارڈر اٹھایا اور اسے کہیں غائب کرا دیا۔ عدالت عظمیٰ نے ابھی صدارتی استثنیٰ کا فیصلہ نہیں کیا لیکن ماتحت احتساب عدالتوں نے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے جناب زرداری اور ان کے ساتھ شریک ملزمان کیخلاف تمام مقدمات داخل دفتر کر دیئے ہیں۔کیا نظام ہے انصاف کا!۔دو برس بیت گئے این آر او کیخلاف سترہ رکنی بینچ نے فیصلہ دیا اور واضح احکامات لکھے کہ زرداری کیخلاف بیرون اور اندرون ممالک تمام مقدمات کھولے جائیں اور سوئس حکام کو خط لکھا جائے کہ ملک قیوم کے کہنے پر جو مقدمہ بند کیا گیا تھا وہ غلط اقدام تھا۔ ملک قیوم بیماری دل کا بہانہ بنا کر باہر بھاگ گیا۔سیکرٹری قانون ایک ہفتہ کی چھٹی پر گیا اور بیمار ہوگیا۔ خود صدر زرداری بیماری کے بہانے باہر بھاگے اور چند ضمانتیں حاصل کرنے کے بعد واپس تشریف لائے۔ ملزم زرداری نے سوئس حکام کو خط لکھنے سے صاف انکار کردیا۔ اور ہماری سپریم کورٹ مکمل طور پر بے بس دکھائی دی۔ بڑی ہمت کرکے توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا۔وزیراعظم اس طرح بازو لہراتے اپنے حواریوں کے ہمراہ سپریم کورٹ سے جلوہ گر ہوئے گویا کشمیر فتح کر لیا ہے۔ شرم نہ حیا۔ اعتزاز احسن نے اپنے ہر اعزاز کی خود نفی کر ڈالی۔ یہ بھی کمال کا نظام انصاف ہے جہاں وکیل کی صرف فیس ہوتی ہے‘ اس کا ضمیر کوئی نہیں ہوتا۔ وہ فیس کی خاطر اپنے ضمیر کا کسی وقت بھی سوئچ آف کرسکتا ہے۔ جس نظام میں وکیل بے ضمیر ہوں‘ جج بے بس ہوں اور عدالتیں وقت گزاری کو ہی انصاف سمجھ لیں وہاں عام آدمی مایوسی کی کوٹھڑی میں بند ہوکر نہیں بیٹھے گا تو اور کیا کرے گا؟پیپلزپارٹی کبھی غریبوں کی جماعت ہوا کرتی تھی۔ غریب کے پاس غربت ہوتی ہے اقدار کی قلت ہی رہتی ہے لیکن آج کی پی پی پی دولت مندوں زرداریوں کی ملکیتی پارٹی ہے۔پوری پارٹی‘ کابینہ‘ وزیراعظم اور حکومت صرف ایک شخص کی غلام ہیں۔دو اڑھائی سال تو خط لکھنے اور نہ لکھنے کے چکر میں گزر گئے ہیں‘ باقی عرصہ خط لکھنے کے وعدہ پر گزر جائے گا۔ پارٹی جب سمجھے گی کہ اب مدت پوری ہونے والی ہے‘ تجوریاں بھری جاچکی ہیں‘ ایک دن سیاسی شہادت سر پر سجا کر نئے انتخابات کے لئے نکل کھڑی ہوگی۔ سیاست شائد نام ہی اس بدمعاشی کا ہے۔لوگ کہاں جائیں‘ تحریک انصاف والوں نے بھی ”سٹیٹس کو“ کا حصہ ہی بننا ہے۔ورنہ 19جنوری کو لاکھوں نوجوان شاہراہ دستور پر کیوں نہ لائے گئے۔ عدالت کو علم ہوتا کہ عوام فوری انصاف چاہتے ہیں ۔ وزیراعظم کو ہتھ کڑیاں لگی ہوتیں لیکن یہاں ریاست کے تمام ادارے‘ سیاست کے سب ستارے اور ذرائع ابلاغ کے تمام دھارے صرف اور صرف اس نظام کو بچا رہے ہیں۔وہ نظام جو بڑے لوگوں کا خدمتگار اور غریب آدمی کا قاتل بن چکا ہے۔پیپلزپارٹی مبارک باد کی مستحق ہے کہ اس نے انتہائی چابکدستی کیساتھ عدالتوں کو چکما دیا ہے۔سال گزارنا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ ایسے پرفریب نظام عدل سے تو ملاں محمد عمر کا شرعی نظام لاکھ درجے بہتر تھا۔بے ضمیر وکیل تھے نہ مصلحت پسند انہ عدل۔پیپلزپارٹی عدالت عظمیٰ کے کٹہرے میں کھڑی ہے اور عدالت عظمیٰ عوام کے کٹہرے میں آگئی ہے۔دیکھیے کون کس کو انصاف دیتا ہے!!!