Sep
03
|
Click here to View Printed Statement
کالاباغ ڈیم کی مخالفت تکینکی نہیں بلکہ سیاسی بنیادوں پر کی جا رہی ہے جس میں بھارت کی سازشوں کابھی ہاتھ ہے۔ دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی جانب سے قرض دینے سے انکار کے بعد کالاباغ ڈیم توانائی کے بحران کا واحد حل ہے جس کے لئے عالمی ادارے قرض دینے کو تیار ہیں۔ اے این پی کی قیادت اب پنجاب دشمنی چھوڑ دے ۔خیبر پختون خواہ کے باشعور عوام اے این پی کی قیادت پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے دبائو بڑھائیں تاکہ ملک کے علاوہ ان کی آنے والی نسلیں خوشحال ہو سکیں۔ اس سلسلہ میں پشاور اور دیگر علاقوں سے آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔اس ڈیم کی تعمیر سے پنجاب میں آباد لاکھوں پشتون بھائیوں کا بھی بھلا ہو گا۔خیبر پختونخواہ اور سندھ کالاباغ ڈیم بننے سے نہیں بلکہ نہ بننے سے بنجر ہو جائیں گے۔بھاشا ڈیم سے کوئی نہر نہیں نکل سکے گی جبکہ کالا باغ ڈیم سے نہروں کا جال بچھ جائے گا۔ کالاباغ ڈیم سے غریب عوام کی ستر لاکھ ایکڑ بنجراراضی کو پانی ملے گا جس سے لاکھوں زندگیوں میں انقلاب آئے گا جبکہ 3800میگا واٹ بجلی الگ بنے گی جس سے توانائی کا بحران حل کرنے میں مدد ملے گی۔موجودہ حکومت نے اس مسئلے پر پارلیمنٹ میں بحث کرنے ،اسے حل کرنے یا متبادل ڈھونڈنے کے بجائے سرد خانے میں ڈال کر قومی جرم کا ارتکاب کیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو 36 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، غربت بڑھ گئی اور معیشت اس حال کو پہنچ گئی ہے کہ عوام ملک کے مستقبل کے بارے میں مایوس ہو گئے ہیں۔سیاستدان بھارت کے ہاتھوں میں کھیل کر پاکستان کو تباہ کرنے کی سازش کا حصہ نہ بنیں۔مزید کسی تعطل کی گنجائش نہیں۔کالاباغ ڈیم ناگزیر ہوچکا ہے!پانی کو زحمت سے بننے سے روکنے کا واحد ذریعہ ڈیم ہوتے ہیں ۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں جس کو سمجھا نا مشکل ہو ڈیم نہیں ہوں گے تو بارشوں کا پانی بستیوں کی بستیاں اجاڑتا سمندر میں جاگرے گا۔ نہ صرف یہ کہ توانائی کا سستا ترین ذریعہ سمندر برد ہورہا ہے بلکہ تھرپارکر جیسے خشک سالی کا شکار علاقے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں ۔بھارت کی طرف سے درجن سے زائد میگاڈیم بنائے جاچکے ہیں جبکہ چھوٹے چھوٹے ڈیموں کا شمار ممکن نہیں۔ پاکستان میں کالاباغ کے مقام پر ڈیم کا منصوبہ عالمی مالیاتی اور تحقیقاتی اداروں کی فزیبلٹی رپورٹس کے بعد شروع کیا گیا تھا۔ ورلڈ بینک اس ڈیم کے لئے فنڈز فراہم کرنے پر تب بھی آمادہ تھا اور آج بھی ہے۔ ضیاء الحق مرحوم اس ڈیم کی تکمیل چاہتے تھے لیکن اس وقت کے گورنر فضل الحق کی صوبائی سیاست رکاوٹ بن گئی اور انہوں نے ڈیم کی تعمیر کو رکوا دیا۔ جنرل پرویز مشرف اپنے ابتدائی دور میں یہ ڈیم تعمیر کرنے کے لئے مخلص دکھائی دیتے تھے لیکن چوہدری برادران کی ”احتیاط” نے معاملہ لٹکا دیا۔ پرویز مشرف نے اقتدار چھوڑنے سے پہلے رائے عامہ ہموار کرنے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن پنجاب مخالف قوتیں بپھر چکی تھیں ۔پرویز مشرف نے متبادل کے طور پر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا اعلان کیا۔ اس ڈیم کا کئی بار افتتاح ہوچکا لیکن تعمیر شروع نہیں ہوسکی۔ گزشتہ دنوں آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ بینک نے اس کی فنڈنگ سے صا ف انکار کردیا ہے۔خدا کا شکر ہے کہ امسال محکمہ موسمیات کی پیشن گوئیاں بڑی حد تک جھوٹ نکلیں ۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جان میں جان آئی اور وقتی طور پر ملک سیلاب کی متوقع تباہ کاریوں سے محفوظ ہے۔ ملک کے بعض حصوں میں بارشوں کا سلسلہ اس طرح برقرار ہے کہ پنجاب کے بعض اضلاع کی رابطہ سڑکیں بہہ چکی ہیں ۔ متعدد بستیاں پانی کی نذر ہوچکی ہیں اور اگر بھارت نے مقبوضہ کشمیر سے نکلنے والے دریائوں کا پانی چھوڑ دیا تو پھر راوی اور چناب کے اردگرد مزید تباہی ہوگی۔ سیلاب کا خدشہ اب بھی برقرار ہے۔ سندھ کے کچے کے علاقے میں گزشتہ سیلابی پانی ابھی تک دلدل کا نظارہ پیش کر رہا ہے جبکہ سندھ کے تھرپارکر ضلع میں قحط سالی کے سبب سینکڑوں خاندان ہجرت کرچکے ہیں اور دربدری کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے ۔خیبر پختونخواہ کا نوشہرہ شہر ایک بار پھر متاثر ہوچکا ہے اور بارشی پانی پانچ سو گھروں میں گھس کر ہزاروں لوگوں کی زندگی ویران کرچکا ہے ۔فصلوں کی تباہی اور جانوں کا ضیاع الگ ہوا۔ یہ منظرنامہ معمول کی بارشوں کے سبب ہے ۔ اگر بارشیں توقع کے مطابق گزشتہ برسوں سے بیس فیصد زیادہ ہوتیں تو انسانی المیوں کی کیسی کیسی دلدوزداستانیں رقم ہوتیں۔ ہلال احمر جیسے ادارے 2010ء کے سیلاب متاثرین کی بحالی سے ابھی فارغ نہیں ہوپائے۔خاکم بدہن خیبرپختونخواہ پنجاب اور سندھ پھر سیلاب کی زد میں ہوتے تو کون ہماری مدد کو آتا ہم کس کو پکارتے اور کون سے عالمی امدادی ادارے ہم پر اعتبار کرتے!