Sep
24
|
Click here to View Printed Statement
کسی کی گردن میں بھی تکبر کا سریا ہوسکتا ہے۔ ہمارے بزرگ دانشور مرحوم نسیم انور بیگ فرمایا کرتے تھے کہ تکبر ایک ایسی بیماری ہے جو گردن کو پیچھے سے آلیتی ہے اور انسان بوقت ضرورت بھی گردن نیچے نہیں کرپاتا۔ پاکستان کے صحافیوں کا مجموعی مزاج بڑی حد تک ”برخودارانہ” ہے۔سچ بولتے’ لکھتے اور دکھاتے وقت پوسٹمارٹم تو ہوتا ہے لیکن پھر بھی جمع کا صیغہ استعمال کرکے ذاتی پسند و ناپسند کو ”اشو” اور بعض اوقات ”قومی اشو” کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ اس سے انفرادی حملہ بھی اجتماعی قبولیت کی سند حاصل کرلیتا ہے۔ یہ سلیقے کی بات ہے اور پاکستان میں استاد صحافی بہرحال اس سلیقے سے مسلح رہتے ہیں۔پاکستانی صحافت کو مصری صحافت سے بہت بہتر قرار دیا جاسکتا ہے۔
مصرمیں حسنی مبارک کی جبری رخصتی کے بعد اخوان المسلمون کے حمایت یافتہ شخص محمدمرسی نے اقتدار سنبھالا تو حسنی مبارک کے دور کے درباری صحافیوں نے صحافتی اخلاقیات کی تمام حدیں توڑ دیں۔انہوں نے اپنی ذاتی پسند وناپسند کو کسی قسم کے ملکی یا بین الاقوامی اشوز کا لبادہ اوڑھائے بغیر ایسے ایسے حملے کئے کہ خود ان کے مداح بھی چیخ اٹھے کہ ”مرسی کو مت مار’و’مصر کے انتہائی معروف ٹی وی چینل ”فراعین” کے اینکر توفیق عکاشہ نے اپنے پروگرام ”سب فرعون” میں محمد مرسی پر انتہائی مہلک حملہ کیا۔توفیق عکاشہ نے جوش انتقام میں کہا”’مرسی دھوکہ باز ہے ‘ جھوٹا ہے ‘ کاش کہ کوئی نوجوان اٹھے اوراسے قتل کردے اور اگر کسی اور نے ایسا نہ کیا تو میں خود مرسی کو قتل کروں گا” توفیق عکاشہ کے یہ الفاظ یو ٹیوب پر موجود ہیں اور دنیا بھر کے ٹی وی چینلز نے اس کے یہ آتشیں مکالمے بار بار دھرائے ۔عکاشہ کے اس بیان پر خود صحافیوں کی تنظیم نے عکاشہ کا نوٹس لیا اور اس کے پروگراموں پر پابندی لگا دی۔ عدالت نے ایک درخواست گزار کی درخواست پر عکاشہ کو جیل میں ڈالا اور مقدمہ زیر سماعت ہے۔مصر کے ایک اورصحافی جو حسنی مبارک کے جتھے میں شامل تھے ان کا مصر کے اندر کئی ایکڑ پرمحیط ایک محل ہے۔ جب پولیس نے شہریوں کی شکایت پر اس محل پر چھاپہ مارا تو صبری نخنوخ کے محل سے غنڈوں کے علاوہ اسلحہ اور خونخوار جانور برآمد ہوئے۔ موصوف صحافی نے اپنے محل میں ٹارچر سیل کھول رکھا تھا جہاں حسنی مبارک کے مخالف صحافیوں کو اذیتیں دی جاتی تھیں۔ جب چھاپہ مارا گیا تو سیکولر صحافیوں کی ٹیم بھی موقع پر موجود تھی۔ وہ یہ سب کچھ دیکھ کر ششدر رہے گئے ۔عیسائی تنظیم نے اس صحافی کی گرفتاری پر بہت غل مچایا اور اپنی ویب سائٹس کے ذریعے مرسی کو بدنام کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ صحافیوں کے روپ میں چھپے چند غنڈوں کی گرفتاری کیخلاف محمد مرسی کے مخالف غیر مسلم گروہوں نے اکا دکا مظاہرے کئے گئے جن کی تصاویر امریکی اخبارات میں بہ اہتمام شائع کی گئیں تاکہ مصر اور امریکہ کے تعلقات کسی بہتری کی بجائے ابتری کی طرف دھکیلے جائیں اور نوزائیدہ جمہوری حکومت کو معاشی طور پر اندھیروں میں دھکیل دیا جائے۔پاکستان کے ایک موقر روزنامے کے وفاقی دارالحکومت میں بیٹھے ریذیڈنٹ ایڈیٹر نے بھی غیر ملکی میڈیا میں کوئی ایک آدھی ایسی تصویر دیکھ لی اور بیٹھے بٹھائے یہ رائے قائم کر لی کہ محمد مرسی اور اخوان المسلمون صحافیوں کے ساتھ وہی ظلم کر رہے ہیں جو حسنی مبارک کے دور میں جاری رہتا تھا۔ وہ مقامی مدیر ہونے کے ساتھ ساتھ اس اخبار میں کالم بھی تحریر فرماتے ہیں۔ ان کے ہر کالم پر تحقیق کا گمان ہوتا ہے۔بہرحال انہوں نے اخوان المسلمون کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اور نظریاتی تعلق کی بنیاد پر جماعت اسلامی کو بھی رگڑ ا دیا۔ ”تعاقب ” کرتے کرتے وہ بہت دور نکل گئے اور توفیق عکاشہ جیسا فیصلہ سنادیا۔ انہوں نے کالم ”مصر کے نئے فرعون” میں صدر محمد مرسی اور ان کی حلیف جماعت پرایسے وار کئے کہ پڑھنے والے بھی اوسان کھو بیٹھے۔آخر مرسی نے ایسا کونسا جرم کیا ہے کہ عوام کے اکثریتی ووٹوں سے جیتنے والے صدر پر فرعون کا لیبل لگا دیا گیا ہے۔ ریٹنگ کی دوڑ میں صرف اینکرز ہی نہیں کالم نگار بھی ”کچھ انوکھا” کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔اچھے خاصے محقق اور متوازن رائے رکھنے والے لکھاری بھی محض اخبار کے مالک اور اپنے بڑے ایڈیٹر کو خوش کرنے کے لئے ایسے ایسے جھوٹ تخلیق کرنے لگے ہیں کہ سچ منہ چھپاتا پھر رہا ہے۔آپ اگر انہیں کہیں کہ حضور رحم کریں اور اپنی رائے کو فیصلہ مت بنائیں تو ان کی گردن کا سریا حائل ہوجاتا ہے۔ وہ رجوع کرنا چاہتے ہیں لیکن تکبر کی بیماری انہیں ایساکرنے نہیں دیتی۔ ایسے فرعون صفت صحافیوں کی صحت مندی کے لئے صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے۔