Dec
29
|
Click here to View Printed Statement
”بعض حلقوں کا خیال ہے کہ جناب ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے انتخاب سے پہلے اصلاحات کی مہنگی ترین مہم میں تیس کروڑ روپے سے زائد خرچ کی جانے والی بھاری رقم جناب آصف علی زرداری کی وساطت سے ملی ہے۔اگر ایسا ہے تو ہم صدر پاکستان سے دست بستہ عرض کریں گے کہ وہ جناب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب پر مذید سرمایہ کاری کرنے سے پہلے جناب میاں محمد نوازشریف سے ان کے بارے میں ضرور پوچھ لیں۔ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں ان کے بعض دیرینہ دوستوں کا خیال ہے کہ شیخ الاسلام کی جسامت دھوکہ دیتی ہے۔ہاتھی کے دانت کھانے کے اور اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔محترم قادری صاحب بہت کچھ کھا جانے کے بعد بھی اڈکار نہیں لیتے اور ان کی خوش خوراکی کا عالم یہ ہے کہ وہ نہ نہ کرتے دسترخوان کے دستر خوان خالی کر جاتے ہیں۔یہ چھ سات برس پہلے کی بات ہے
کہ ڈاکٹر موصوف راولپنڈی میں ہمارے دوست جناب ناصر مغل صاحب کے گھر جلوہ افروز ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب کو کمر کا درد بھی ہوتا ہے اور اس دردپر قابو پانے کے لئے وہ ایک گدی کا سہارا لیتے ہیں۔یہ گدی رکھنے اور اٹھانے کے لئے خصوصی ملازم بھی ان کے ہمراہ تھا۔ گاڑی میں ڈرائیور کے علاوہ ان کے دو گن مین بھی چاک و چوبند دکھائی دے رہے تھے۔ ناصر مغل سابق طالب علم رہنما ہیں اور عظیم المرتبت لوگوں کے لئے دستر خوان بچھاتے رہتے ہیں۔ انہوںنے اپنی نیت کی خوبصورتی کی طرح اس دعوت کا اہتمام بھی انتہائی خوبصورتی سے کیا تھا۔ راقم کو نوالے گننے کی عادت نہیں لیکن درجن بھر ڈشیں دیکھنے کے بعد شمار کرنے کو جی چاہا۔ حیرت ہوتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب جیسے سمارٹ اور سڈول جسم والے عالم دین نے کم خوراکی کے مسلسل دعووں کے باوجود تقریباً ہر ڈش سے جی بھر کر کھایا۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی خوش خوراکی کا سبب میزبان کا اصرار ہو۔ جب سویٹ ڈشیں پیش کی جانے لگیں تو ڈاکٹر صاحب نے از راہ تکلف فرمایا” اتنی ڈشیں ایک غریب آدمی کو کہاں میسر آتی ہیں۔ میں نہیں کھائوں گا” راقم سے رہا نہ گیا اور ازراہ تفنن عرض کی جہاں اٹھارہ ڈشیں آپ کھا گئے وہاںچار یہ بھی کھا لیں۔عرض کرنے کا مدعا و مقصد یہ ہے کہ جناب آصف علی زرداری جو کہ سیاست میں ایک ماہر سرمایہ کارثابت ہوئے ہیں وہ ایسی غلطی کر ہی نہیں سکتے۔ لیکن اگر ان کے خیرخواہوں یعنی ملک ریاض وغیرہ نے زرداری اقتدار کی طوالت کے لئے ڈیڑھ دو ارب روپے لٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے تو ہم ان کے لئے صرف دعائے خیر ہی کرسکتے ہیں۔انتخابی اصلاحات کے مطالبے کی تفصیلات بھی دھیرے دھیرے سامنے آرہی ہیں۔مثلاً ایم۔کیو۔ایم جو کہ جناب قادری کو سب سے زیادہ سپورٹ کر رہی ہے اس کے نزدیک سب سے بڑی انتخابی اصلاح یہ ہے کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کو فوری طور پر تبدیل کردیاجائے۔ ابھی دس اور چودہ جنوری بہت دور ہیں۔ اصلاح کی پٹاری سے اسی طرح کے انڈے بچے مزید نکلنے کا امکان ہے۔جہاں تک جناب قادری کے اعلان کردہ ملین مارچ کا تعلق ہے تو مارچ جنوری کے بعد آتا ہے۔ اس لئے جناب حافظ سعید صاحب نے جناب قادری کو مشورہ دیا کہ وہ اس قدر تیز رفتاری نہ دکھائیں’ جنوری میں مارچ نہیں ہوا کرتا۔ بعض سازشی گروہ یہ افواہ بھی پھیلا رہے ہیں کہ جناب قادری خود نہیں آئے بلکہ بھیجے گئے ہیں ۔ بعض کا خیال ہے کہ بلائے گئے ہیں۔بلانے والے کون ہیں کوئی حتمی جواب نہیں ہے۔ جہاں تک جی۔ایچ۔کیو والوں کا تعلق ہے تو وہ ”نادرا” کے دفتر میں الیکشن کمیشن کے چیف کو مل چکے ہیں۔ اور چیف آف الیکشن کمیشن کو آرمی چیف نے یقین دہانی کرادی ہے کہ وقت مقررہ پر انتخابات کرانے کے لئے فوج بھرپور تعاون کرے گی۔ جب سے قادری صاحب کو اس ملاقات کا علم ہوا ہے وہ بار بار وضاحتیں کرنے لگے ہیں کہ ”میرا ایجنڈا الیکشن ملتوی کرانا نہیں”۔حالانکہ مینار پاکستان میں اذان کو نظرانداز کرتے ہوئے انہوں نے یہی فرمایا تھا کہ آئین میں نوے دنوں میں الیکشن کرانے کی کوئی پابندی نہیں۔ میرا ذاتی سا خیال ہے کہ کور کمانڈرز کی کوئی ایک کانفرنس اور آئین کا ساتھ نبھانے کا فوجی اعلان جناب قادری صاحب کو جی ٹی روڈ یا موٹروے پر چڑھنے سے روکنے کے لئے کافی ہوگا۔قارئین ! میں قادری صاحب کی خطابت کا دل سے قائل ہوں اور مجھے ان کی کینڈین شہری ہونے پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ بلکہ میرے جیسے مداح تو چاہتے ہیں کہ وہ کینیڈا کے بعد آسٹریلیا’ امریکہ’ جاپان اور لندن کی شہریت بھی لے لیں اور وہاں کے کافروں کو اپنے افکار سے محظوظ فرماتے رہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ قادری صاحب سیاسی اسٹیج پر ایک مہمان اداکار کے طور پر تھوڑے وقت کے لئے اپنے جوہر دکھانے آئے ہیںو ہ ان کی پرفارمنس کو انجوائے کریں اور یہ جان لیں کہ جناب قادری آئندہ کے انتخابات میں بارگیننگ کی بہترین پوزیشن میں ہوں گے۔