Apr
08
|
Click here to View Printed Statement
بچے اللہ کے پھول ہوتے ہیں۔پھول اور خوشبو کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔جہاں پھول ہوں وہاں خوشبو ضرور ہوتی ہے۔ اگر بچوں کے دل و دماغ میں اسلام اور پاکستان کا نظریہ بو دیا جائے تو ان کی زندگیوں میںہمیشہ اس نظریہ کی خوشبو آتی رہے گی۔ جتنا نظریہ پختہ اسی قدر خوشبو کا اثر دیرپا اور جس قدر بچوں کی تعداد زیادہ اسی قدر خوشبو کا پھیلائو وسیع۔ اگر نظریاتی خوشبو چہار سو پھیل جائے توپھر سیکولرازم اور بھارت بوچا کی بدبو کو کہاں جگہ ملے گی۔ اور اگر ملے گی بھی تو ان محدود ذہنوں میں مقید ہوجائے گی جن ذہنوں کے اندر کردار’ غیرت’ یوم آخرت اور انصاف پسندی کی کوئی اہمیت ہے ہی نہیں ۔
یہ ”امن کی آشا” کے ایسے اسیر ہیں جو ایم ایم عالم جیسے قومی ہیرو کو ٹی وی سکرین پر زیروبنانے کی کوشش کرتے ہیں اور بال ٹھاکرے کی چتا سے اپنے قلب و نظر کو بھی جلا ڈالتے ہیں۔نظریہ پاکستان ‘یعنی نظریہ اسلام ‘ دو قومی نظریہ کا خوبصورت نام۔ اس نظریہ کو باطل ثابت کرنے کے لئے امریکنائزڈ دانشوروں اور بھارتی نواز قیافہ شناسوں نے بہت حملے کئے۔ لیکن ایک طرف اس صدی کا بیٹا’ سالاراعظم محترم مجید نظامی اور ان کے ساتھی کھڑے ہیں اوردوسری طرف ڈالرزاورڈرونز کی موسلادھار بارش ۔ پھر بھی نظریاتی محسنوں کا یہ قبیلہ جیت گیا اور فرزندان مال و متاع کی فوج ہار گئی۔آج گلی گلی اور محلے محلے میں نظریہ پاکستان کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ بچوں کی توتلی زبانوں پر پاکستان کا مطلب کیا۔لاالہ الا للہ’پاکستان زندہ باد’اسلام زندہ باد کے نعرے تتلا رہے ہیں۔ جو لوگ کہتے تھے کہ نظریہ پاکستان مجید نظامی اور ان کے عمر رسیدہ ساتھیوں کی زندگی تک محدودرہے گا ان اسیران نفس کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ ”جنریشن گیپ”کا فلسفہ دم توڑ گیا۔ نئی نسل نے محترم جناب چیئرمین کی انگلی تھام لی ہے۔ اب انتقال خون کی طرح نظریہ بھی منتقل ہوچکا ہے۔خوشبو کو پھیلنے سے اب کوئی روک نہ سکے گا۔محترم نسیم انور بیگ جنت نصیب کے حکم پر میں بھی نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے کے نظریاتی قافلے میں ایک جھنڈا بردار کے طور پر شامل ہوا تھا۔راولپنڈی اسلامک سکول آف ایکسی لینس (رائز) کو دراصل پانچ برس قبل نظریہ پاکستان کے ایک مورچے کے طور پر شروع کیا تھا۔ الحمد للہ’ احباب کی حوصلہ افزائی سے پانچ برس بعد گلستان کالونی میں نظریاتی گلشن پوری طرح بہار دے رہا ہے۔یوم قراراداد پاکستان کی مناسبت سے اس سکول کی بنیاد رکھی گئی تھی اور ہر سال یوم قرارداد کی نسبت سے سالانہ تقریب تقسیم اور ایک نظریاتی محفل کا انعقاد ہوتا ہے۔ 21مارچ کو وسیع گرائونڈ میںایسی ہی تقریب منعقد ہوئی۔ اس بار بھی حسب سابق بہت سے مہربانوں کی آمد نے جہاں بچوں کا حوصلہ بڑھایا وہیں میری ہمت بھی بندھائی۔تشریف لانے والوں میں باکردار سیاستدان سابق وفاقی وزیر جناب ڈاکٹر غلام حسین صاحب اپنی پیرانہ سالی کے باوجود بھرپور طور پر شریک رہے ۔ڈاکٹرصاحب جوشیلے مقرر ہیں۔انہوں نے سیاست میں کردارکی اہمیت پر روشنی ڈالی۔”حالات کی نہیں ذہنوں کی پسماندگی قوموں کو لے ڈوبتی ہے۔ میں نے دنیا بھر کے ممالک کی خاک چھانی ہے ۔پاکستان جیسا خوبصورت کوئی او ر ملک ہو ہی نہیں سکتا۔جس ملک میںڈاکٹر مرتضیٰ مغل جیسے صالح افراد فکرفردا کے احساس سے مزین ہو کر نئی نسلوں کو سنوارنے کے مشن پر گامزن ہوجائیں اور پسماندہ علاقوں کے بچوں کے اخلاق سنوارنے اور کردار تعمیر کرنے کیلئے نظریاتی تعلیمی ادارے قائم کردیں اس ملک کو نہ نظریاتی محاذ پر شکست ہوسکتی ہے اور نہ ہی جغرافیائی دفاع کمزور ہو سکتا ہے۔آج کا پاکستان ایک ایٹمی پاکستان ‘آج کا پاکستان دنیا کی تین ارب آبادی کا ہمسایہ ملک ہے۔دنیا کی بلند ترین چوٹیاں اس ملک میں ہیں۔گہرے سمندر اس کی ملکیت ہیں۔اصل مسئلہ صرف اور صرف حکومت اور حکمرانوں کے کردار کا ہے۔آپ باکردار نمائندے سامنے لائیں۔یہ ملک صرف پانچ سال میں دنیا کے پہلے پانچ ملکوں میں شمار ہونے لگے گا”جنرل (ر) مسعود کیانی دلوں کی مسیحائی کرتے اور سادہ لفظوں میں اپنی بات دلوں میں اتارنے کی مہارت رکھتے ہیں۔بچوں کے والدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے”’جسمانی صحت اچھے ذہن کے لئے ضروری ہوتی ہے۔آپ کا فرض ہے کہ آپ بچوں کے دانتوں کی صفائی کا خیال رکھیں’ان کی خوراک کو متناسب بنائیں۔دودھ اور فروٹ کا استعمال بڑھائیں تاکہ انہیں ہارٹ کی بیماریوں سے نجات ملتی رہے۔ سگریٹ نوشی بچوں کی صحت کے لئے انتہائی مضر ہے اور یہ راز ہم سب جانتے ہیں’لیکن میں ان پیارے بچوں سے کہوں گا کہ وہ اگر والد یا بڑے بھائی کو سگریٹ پیتے دیکھیں تو ان سے چھین کر بجھا دیا کریں۔”عظیم پاکستانی اور فکروعمل کے پیکر محترم حمید گل صاحب بوجہ صحت تشریف نہ لاسکے لیکن نوجوانوں میں انتہائی مقبول اور متحرک ان کے صاحبزادے عبداللہ گل تشریف لائے۔عبداللہ گل کا کہنا تھا”’نوجوان ہی اب اس ملک کے روشن مستقبل کے ضامن ہیں۔نوجوانوں کے اندر اقبال کے افکار کی بنیاد پر تحریک پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔اس طرح کے نظریاتی سکول ہی دراصل اقبال کے شاہین بناتے ہیں”۔تیکھے انداز فکر کے حامل کالم نگار جناب بیگ راج نے بچوں سے سوال کیا کہ پاکستان کا نقشہ کس پرندے کی مانند ہے تو ایک بچی نے جواب دیا ”عقاب” بیگ راج نے بچوں کو عقاب اور گدھ کی خصوصیات میں فرق سمجھاتے ہوئے کہا”’عقاب اپنا شکار خود کرتا ہے جبکہ گدھ مردار کھاتی ہے’عقاب اونچی پرواز کرتا ہے جس سے اس کی دور تلک دیکھنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے جبکہ گدھ نچلی پرواز پر رہتی ہے اور اس کی نگاہ زمین پر مرنے والے جانوروں کو ڈھونڈتی رہتی ہے۔عقاب بہادر ہوتا ہے جبکہ گدھ کو چھوٹا سا پتھر مار کر بھگایا جاسکتا ہے۔عقاب درختوں پر گھونسلے بنانے کی بجائے پہاڑوں کی بلندیوں پر بسیرا کرتا ہے جبکہ گدھیں غول کی صورت میں بوڑھے درختوں پر پڑی رہتی ہیں۔بچو!پاکستان کے نقشے کی شکل عقاب کی طرح ہے اور آپ اس عقاب کے پر ‘پنجے اور چونچیں ہیں۔اس پاکستانی عقاب کو اوپر اٹھانا ہے۔دشمن سے ڈرنا نہیں بلکہ اسے خوفزدہ رکھنا ہے۔ پاکستان کو امریکی امداد یا بھارتی تجارت کے مردار نہیں کھانے دینے بلکہ دور بینی کے ساتھ اسے معاشی اور نظریاتی اٹھان دینی ہے۔”رائز” سکول میں سے تربیت پانی ہے اور عقابوں کی طرح زندگی کے مختلف شعبوں میں اونچا سے اڑنا ہے”۔تقریب کے اختتام پر بچوں کے لئے انعامات کا سلسلہ شروع ہوا۔ تمام مہمان اپنا وقت نکال کرآئے’اپنی گاڑیوں پر آئے اور بڑی محبت کے ساتھ سکول میں پھلنے پھولنے والے ان نظریاتی پھولوں کو نکھارنے میں مصروف رہے۔مجھے یقین ہے کہ مجھ سے کہیں زیادہ اہل اور صاحبان ثروت احباب موجود ہیں اور کچھ کرنے کی تڑپ بھی رکھتے ہیں۔ میرا انہیں مشورہ ہے کہ وہ بھی تعلیم وتربیت کی کوئی نہ کوئی سہولت شروع کریںجہاں عام لوگوں کے بچے خاص لوگوں کے لیول کی تعلیم حاصل کریں اور بڑے ہو کر نظریاتی پاکستان کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈالیں۔