May
13
|
Click here to View Printed Statement
بڑے دِل گُردے کی بات ہے۔دہشتگردی نے کتنے گھر اُجاڑ دیئے۔کوئی مقام ایسا نہیں جہاں خون نہ بہایا گیا ہو۔خون بہانے والے کھل کر کھیلے اور آئندہ بھی شائد وہ غارت گری کی اسی راہ پر چلتے رہیں۔کوئی بھی ایسی سیاسی پارٹی نہیں جس کے جسد کو بموں اور گولیوں نے چھلنی نہ کیا ہو۔کوئی بڑی سیاسی شخصیت ایسی نہیں جسے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر خوف میں مبتلا نہ کیاگیا ہو۔عام پاکستانی جلسے جلوس میں جانے سے پہلے کئی بار سوچتا رہا کہ وہ واپس آئے گا بھی یا نہیں۔انتخابات کی گہماگہمی اوربموں کی پوچھاڑ ساتھ ساتھ چلتی رہی۔بمبار ہارے نہ ہی عوام نے حوصلہ چھوڑا۔اتنے بڑے خطرات مُول لیکر اس انتخابی نظام میں لوگ آخر کیوں حصہ دار بنے۔
موت سامنے تھی پھر بھی جوشیلے نعرے’ پسینہ چھوڑتے ہاتھوں میں جھنڈے اور برتری حاصل کرنے کے لئے ڈنڈے لہراتے رہے۔جنون اور قارون سب کیوں جُتے رہے۔ماضی میں کسی بھی انتخاب میں ایسی شدید سیاسی تقسیم اور تھکا دینے والی سیاسی سرگرمیاں دیکھنے کو نہیں ملتیں۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ جمہوریت نے سوائے مایوسیوں کے ہمیں کچھ نہیں دیا۔کرپشن’لوٹ مار اور خانہ جنگیاں۔یہ سب جمہوریت کا ہی تحفہ ہے۔ اس کے باوجود قوم نے مزید جمہوریت کو ہی اپنی منزل تصور کیا۔ ایسے حالات میں جبکہ ایک طرف شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے ”کرپٹ نظام” سے لڑنا ہوگا۔ گیارہ مئی کو ”دھرنا ہوگا” کی پورے پاکستان میں وال چاکنگ کرائی۔ ایس ایم ایس اور فیس بُک کے ذریعے ووٹ نہ ڈالنے پر لوگوں کو آمادہ کیا۔دھرنے دیئے ‘لوگ پھر بھی ووٹ کی پرچی کو خوشحالی کا چیک سمجھ کر سنبھالتے رہے۔آخری نتیجہ جو بھی ہو ایک نتیجہ بہرحال برآمد ہوچُکا کہ پاکستانی عوام کی اکثریت جمہوریت کے علاوہ کسی اور نظام کی طرف راغب نہیں ہوسکی۔ طالبان کا ”امارت اسلامی” کا فلسفہ بھی پوری شدت کے ساتھ سامنے آیا اور آرہا ہے۔حزب التحریر کے لوگوں نے اپنے طور پر ”خلافت” کی طرف مراجعت پر بھرپور مہم چلائی اور چلا رکھی ہے۔لیکن ایک عام پاکستانی کو سمجھ نہیں آتی کہ پُرامن انتقال اقتدار کا دوسرا کونسا طریقہ ہوسکتاہے۔ہمیں قوم کی نفسیات کا تجزیہ کرتے وقت یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اسلام کی طرف سے دیا جانے والا ”امرھم شوریٰ بینھم” کی تشریح بھی ووٹ یا رائے دیہی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ صحیح ہے کہ پاکستان کے ستر فیصد نوجوان شرعی نظام کے حامی ہیں لیکن ان کے سامنے شرعی نظام کے نفاذ کا ذریعہ پارلیمان کے علاوہ کوئی نہیں۔حکمران چُننے کا اختیار ایک ایسا حق ہے جو صرف اور صرف ووٹ کے ذریعے ہی مل سکتا ہے۔ اور یہی حق لینے اور آزمانے کی خاطر پاکستانی قوم نے زخم برداشت کئے۔ لاشیں اٹھائیں ‘اغواء کی وارداتیں ہوئیں اور بالآخر پولنگ سٹیشنوں پر پہنچ گئے۔سچ یہ کہ لوگ خون کے دریا عبور کرکے پولنگ بُوتھ تک پہنچے۔جیتنے والی پارٹیوں کو حکومتیں بناتے وقت یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اگر اب کی بار بھی محض باری لینے کی نفسیات حاوی رہی اورعام آدمی کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی نہ آسکی تو پھر غیر جمہوری فلسفے کو پروان چڑھنے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہ سکے گی۔اگر شیر اور بلے کا تکبرّکسی مضبوط اور مفید اتحاد کی راہ میں رکاوٹ بنا تو یہ قوم نہ شریف برادران کو معاف کرے گی اور نہ ہی اپنے قومی ہیرو سے مزید ہمدردی کرسکے گی۔دونوں پارٹیوں نے انتخابی مہم کے دوران تقریباً ایک جیسے پروگرام دیئے’ایک جیسے وعدے کئے۔(ن) لیگ کے پاس حکمرانی کا وسیع تجربہ ہے اور اس پارٹی نے واقعتا بڑے بڑے منصوبے مکمل کئے ہیں۔لیکن تحریک انصاف کے پاس ایک پُرجوش فورس ہے۔ اگر واقعتا یہ پارٹیاں نیا پاکستان بنانا چاہتی ہیں تو پھر ان کی آپس کی مخاصمت اس مُلک کو پھر سے اندھیروں میںدھکیل دے گی۔ یہ قوم بڑی حوصلہ مند ہے لیکن ذاتی مفادات کے تابع سیاسی قلابازیوں کو کبھی برداشت نہ کر پائے گی۔ووٹ اور اس نظام سے ہمیشہ کے لئے لاتعلق ہوجائے گی۔