Sep
20
|
Click here to View Printed Statement
یہ سچ ہے کہ ہمسائے ماںجائے ہوتے ہیں۔ہمسایوں کے حقوق کا اسلامی تعلیمات میں شاندار تذکرہ ہے۔ اگر آپ پیٹ بھر کر سوئیں اور آپ کا ہمسایہ بھوکا رہے تویہ صورتحال پیغمبراسلام محسن انسانیت کو ہرگز پسند نہیں ہے۔ایسے مسلمانوں کو صاحب ایمان ہونے کی سند ہی نصیب نہیں ہوتی۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ آپ ہمسایوں کے حقوق پورے کرتے رہیں اور ہمسایہ بھی آپ کے حقوق کا احترام کرے۔ہمسایوں کے حوالے سے تمام تعلیمات اسلامی معاشرے کی خصوصیات ہیں۔ہمسایوں کے حقوق کے فارمولے کو ملکوں اور قوموں پر منطبق نہیں کیا جاسکتا۔اگر ایسا ہوتا تو ریاست مدینہ کیخلاف جنگ کرنے والے سارے گروہ اور قومیںہمسایہ ہی تھیں۔جہاں حق اور باطل اور خیر اور شر کی تفریق لازم ہو وہاں ہمسایوں کے حقوق کو حوالہ کے طور پر پیش کرنا اسوہ رسول سے انحراف ہوگا۔
جب بعض دانشور اور سیاستدان پاکستان کو ہمسایوں کے حقوق کا حوالہ دے کر بھارت سے دوستی کرنے کا شوق پیدا کرتے ہیں تو وہ دراصل زمینی حقائق کو یکسر بھلا دیتے ہیں۔ ہندو اور مسلمان آج سے نہیں صدیوں سے ایک دوسرے کے مخالف‘دشمن‘ بلکہ ضد رہے ہیں۔مسلمانوں نے ہندوستان پر اپنی قوت اور طاقت کے ذریعے حکمرانی کی ہے ۔ہندوﺅں کے لئے یہ ایک تلخ حقیقت ہے جسے شائد مسلمان بھلا دیں لیکن ہندو کبھی بھلا نہیں پائیں گے۔مذہبی اعتبار سے مسلمانوں کے خلاف نفرت ہندو عقیدہ ہے جسے ہندو چھوڑنے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہیں۔ ان کی اس تنگ نظری کے مظاہرے ہزار سالہ تاریخ میں بار بار ہوئے ہیں۔
قیام پاکستان دراصل انہی تاریخی حقائق کا ایک اظہار ہے۔قائداعظمؒ نے مجبور ہو کر علیحدہ مملکت کا آپشن قبول کیا تھا۔ پاکستان اور بھارت کی تین جنگیں بھی بھارتی تنگ نظری کا ہی ثبوت ہیں۔ آج بھی کشمیر میں ہندوفوجیں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہیں۔ غیر جانبدار سروے رپورٹوں میں بار بار انکشافات ہورہے ہیں کہ بھارت کے اندر مسلمانوں کو ہر شعبہ حیات میں رگیدا جارہا ہے۔حال ہی میںبھارت میں مسلمانوں پرپھر قیامت توڑی گئی ہے۔اتنے واقعات اور حادثات ہیں کہ صفحات کے صفحات لکھے اور بھرے جاسکتے ہیں۔لیکن ہمارے وزیراعظم جناب میاں محمد نوازشریف بار بار دھراتے ہیں کہ انہیں بھارت کے ساتھ دوستی کے لئے مینڈیٹ دیا گیا ہے۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ میاں نوازشریف کو بھارت نواز آصف علی زرداری اور ان کے کرپٹ ٹولے سے نجات کے لئے لوگوں نے ووٹ دیئے تھے۔ اگر انہیں یقین نہیں آتا تو الیکشن مہم کے دوران شائع ہونے والے اپنے اشتہارات کو ایک بار پھر پڑھ لیں۔
عام پاکستانی کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر بھارت کے ساتھ دوستی ہوجائے گی تو اس سے مسئلہ کشمیر کیسے حل ہوجائے گا۔ محض امن برائے امن تو کسی خوشحالی کی ضمانت نہیں ہوتا۔ دنیا میں بے شمار ممالک ہیں جو باہم امن سے رہ رہے ہیں اور ان کا کسی ملک کے ساتھ کوئی جھگڑا بھی نہیں لیکن پھر بھی بھوک سے مر رہے ہیں۔جنگ نہیں ہونی چاہیے لیکن کوئی دشمن آپ کی گردن پر پاﺅں رکھے بیٹھا ہے اور آپ آہ و بکا بھی نہ کریں کہ کہیں امن کی فضاءخراب نہ ہوجائے۔ بھارت نے ہماری شہ رگ پرقبضہ تو کیا ہی تھا اب کابل میں بیٹھ کرپراکسی وار بھی لڑ رہا ہے۔ ہمیں سب سے پہلے اپنی شہ رگ آزاد کرانے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ امن کی خواہش میں دشمن ہمارا گلا ہی دبا دے۔
میاں نوازشریف کو کون سمجھائے کہ وہ بھارت سے ہمسائیگی کی حد تک ہی محدود رہیں دوستی کے فریب میں نہ آئیں۔ترکی میں جا کر بھی بھارت سے دوستی کے لئے تڑپ ایک ذلت ہے۔ صحافت کی دنیا سے کوئی بھی آواز اس خود فریبی اور رسوائی کے خلاف نہیں اٹھتی۔ہاتھی کے پاﺅں میں سب کے پاﺅں ۔صرف ایک شخص ہے جو بھارتی آبی جارحیت اورعلاقائی بالادستی کیخلاف پہاڑ کی طرح ڈٹا ہوا ہے۔ یہ کوئی اور نہیں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین ڈاکٹر مجید نظامی ہیں جو میاں صاحب کی ہر لغزش پر گرفت کرنے اور ان کی یکطرفہ بھارت دوستی کوپاکستان کی سلامتی کے خلاف عمل قراردیتے ہیں۔ اللہ ڈاکٹر صاحب کا سایہ اس قوم پر سلامت رکھے!