Dec
26
|
Click here to View Printed Statement
پاکستانی قوم کو لوٹنے والوں کی متنوع قسمیں اور متعدد شکلیں ہیں۔کسی نے ڈبل شاہ بن کر لوٹا اور کچھ نے ڈبل شاہ کو بھی لوٹ لیا۔بعض مضاربہ کمپنیوں کے نام پر جبہ و دستار میں ظاہر ہوئے اور پھر کھربوں کی لوٹ مار میں سے کروڑوں دے دلا کر چھوٹ گئے۔عوام ہاتھوں میں سادہ کاغذوں پر لکھی مبہوم سی تحریریں لئے نیب کے دفتروں کا چکر لگاتے ہیں اور پھر قسمت کو کوستے واپس گھر آجاتے ہیں۔جو وارداتیں صرف فلموں میں دیکھی جاتی تھیں وہ آئے روز ہماری زندگی میں رونما ہورہی ہیں۔ ریاستی ادارے اپنی اپنی تنخواہیں اور مراعات کو یقینی بنانے کی حد تک بہت مستعد ہیں۔لوگوں کی جمع پونجیوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے کسی کو فکر ہے نہ کہیں ذکر۔اخبارات میں خبریں شائع ہوتی ہیں۔چند روز شوروغوغا ہوتا ہے اور پھر کوئی نیا سکینڈل پہلے والے سکینڈل کو زیر زمین کردیتا ہے۔
پھر بھی ذرائع ابلاغ کا شکریہ کہ نفسیاتی حد تک دل کا غبار نکالنے کا سامان تو ہوہی جاتا ہے۔ لیکن لٹیروں کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو انتہائی صفائی سے سروس چارجز اور جرمانے کے نام پر ہر نیک اکائونٹ ہولڈر کی جمع پونجی’تنخواہ اور اثاثے کو چوہوں کی طرح کترتے رہتے ہیں۔ اکثر کھاتے داروں کو علم ہی نہیں ہوتا کہ بینک میں پڑی ان کی رقم کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔
راقم نے ایک اسلامی بینک سے گاڑی فنانس کروائی اور یہی میری سب سے بڑی خطا تھی کہ میں نے بینک کے ساتھ یہ تعلق قائم کیا۔ بینک کے نمائندوں نے میرے دفتر آکر بریفنگ دی۔اطمینان دلایا اور بتایا کہ دراصل بینک کو کوئی فائدہ ہی نہیں یہ تو کنزیومر کی سہولت کے لئے بینک نے ایک سروس دی ہوئی ہے۔ میں نے بھی کیکولیٹر پر حساب کتاب لگایا اور سوچا کہ یکمشت کل رقم دینے کی بجائے دھیرے دھیرے قسطیں دیتا رہوں گا اور یوں پانچ سال بعد گاڑی اپنی ہوجائے گی۔پہلے تو ٹیکس کے نام پر ہی ”ٹوکا” چلا جس کا پہلے سے بتایا نہیں گیا تھا۔ پھر ٹریکر اور انشورنس کی لازمی بلکہ بینک کی طرف سے ہی متعین کردہ کمپنیوں کے ذریعے معاملات طے کرنے کی پابندی نے ہی جیب پر ڈاکہ ڈالا۔ اور جب گاڑی دے دی گئی تو متعلقہ بینک اور اس کے افسر کسی طرح کی تحریری معلومات دینے سے گریزاں دکھائی دیئے۔ ایک روز شام کے وقت پیرسوہاوہ کی طرف ہوا خوری کے لئے نکلا۔چڑھائی کے وسط میں جا کر گاڑی بند۔بیوی بچے ساتھ’دو گھنٹے تک تگ و دو کرتا رہا۔اندازہ ہوا کہ ٹریکر کے ذریعے گاڑی بند کردی گئی ہے۔بچے پریشان’بینک کے درجن بھر لوگوں کو فون کرنے پر گاڑی اسٹارٹ ہوئی۔ حالانکہ راقم نے ملتان’لاہور’سوات’مری اور اسلام آباد کی حدود میں گاڑی چلانے کی پیشگی اطلاع بھی کررکھی ہے۔منال تو اسلام آباد کی حدود میں ہی ہے ۔گاڑی چوری ہونے کے خدشے کے بہانے بینک والے کس قدر پریشان کرتے ہیں اس کا اندازہ ان تمام لوگوں کو ہے جو بدقسمتی سے کار فنانسنگ کے ہتھے چڑھے ہیں۔اگر خدانخواستہ یہ گاڑی کسی اجاڑ جگہ بند کردی جاتی اور کوئی جانی یا مالی نقصان ہو جاتا تو اس کا ذمہ دار کون ہوتا؟۔
آپ ایک بار اپنے بینک اکائونٹ کی ماہانہ شیٹ نکال کر دیکھیں۔اگر آپ نے اے ٹی ایم کارڈ رکھا ہوا ہے اور آپ اسے استعمال کرتے ہیں تو یقین جانیئے کہ آپ ہر بار استعمال کرنے پر کافی روپے بینک کو دے چکے ہوں گے۔ لاکھ روپے نکلوائیں تو سمجھ آجائے گی۔پاکستان میں یہ طرفہ تماشہ ہے کہ آپ کی بینک میں رکھی رقم بڑھنے کی بجائے خودبخود کم ہوتی جائے گی ۔ہمارے ایک دوست نے ایک روز ایک بینک کے اے ٹی ایم سے کیش نکلوانے کے لئے کارڈ ڈالا۔ مشین کی ہدایات کے مطابق عمل کیا۔ رقم باہر آنے کا انتظار کیا۔ رقم تو نہ آئی البتہ کارڈ اور سلپ باہر آئے۔ سلپ پر نکلوائی جانے والی رقم درج تھی۔سخت تشویش کے عالم میں بینک منیجر کے پاس حاضری دی۔ جواب ملا کہ آپ نے سلپ غور سے نہیں پڑی۔آپ کی ٹرانسیکشن ہوئی پھر ریورس ہوگئی۔ عرض کی کہ میرے پیسے تو نہیں کٹیں گے۔جواب تھا’ٹرانزیکشن ہونے اور واپس ہونے پر اے ٹی ایم چارجز کے سوا کچھ نہیںکٹے گا۔یعنی کہ پچاس ساٹھ روپے نکل گئے۔لوٹنے کے کیسا مہذب طریقہ ہے۔!
اگر آپ نے کریڈٹ کارڈ حاصل کرنے کی غلطی کر لی ہے تو کم از کم اسے استعمال کرنے کی غلطی نہ کیجئے گا۔پرائیویٹ کمپنی میں اعلیٰ ملازمت پر فائز ہمارے ایک دوسرے کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے ہیں۔مجھے انہوںنے اپنا بل دکھایا۔بل بھیجنے والے بینک نے کمال فن کی انتہا کردی۔بل پر ندرہ ہزار 9پیسے لکھا گیا تھا۔
اب آجکل 9پیسے ہوتے ہی نہیں۔کوئی بینک ہی پیسے والی کرنسی دکھادے تو مان جائیں گے۔لیکن یہ واردات کا انوکھا طریقہ ہے۔ دوست نے پندرہ ہزار روپے جمع کرا دیئے لیکن نو پیسوں کو اہمیت نہیں دی کیونکہ مل ہی نہیں رہے تھے۔ لیکن دوست کو علم نہیں تھا کہ وہ لٹیروں کی کس قسم سے پالا پڑا ہے۔ دوسرے بل کے ساتھ 9پیسے جمع نہ کرانے پر اٹھائیس سو روپے جرمانہ ڈالا گیا تھا۔خدا جانے کتنے لوگ ہیں جو کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے ہیں اوراسی طرح ہر ماہ لٹنے رہتے ہیں۔
حکومت نے بینکوں کو کیا نکیل ڈالنی ہے۔بینک تو ہیں ہی حکمرانوں اور ان کے رشتہ داروں کے۔سال ہا سال سے بینکوں کی وارداتیں سہنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خدارا بینک سے کوئی کاروبار مت کرنا اور کم از کم ان سے کریڈٹ یا قرضہ مت لینا اور یہی مشورہ مجھے ملک بھر کے بے روزگار نوجوانوں کو ہے ۔اگر ایک بار پھنسو گے تو پھر تمہاری جوانی بڑھاپے میں ڈھل جائے گی۔لٹیرے تمہاری جان نہیں چھوڑیں گے۔!