Jul
24
|
Click here to View Printed Statement
ایک بداندیش کالم نگار نے ”پانچ لاکھ خودکش” کے عنوان سے کالم لکھ کر قبائلی عوام کے جذبہ حب الوطنی کو مشکوک ٹھہرایا ہے۔دانشوروں کا المیہ ہی یہی ہے کہ وہ ان جانے خوف پھیلا کر سامنے کی خوبصورت حقیقتوں کا مذاق اڑانے میں ہی کمال قلم و علم ڈھونڈتے ہیں۔ کیا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں نہیں ہے کہ شمالی وزیرستان میں ایک خاص فلسفہ کے حامل مسلح گروہ اپنی امارت قائم کرکے پاکستان کو تاخت و تاراج کرنے کی جانب بڑھتے چلے آرہے تھے۔ محب وطن قبائلی لوگ شروع شروع میں مزاحمت کرتے رہے اوروہاں مقامی رہائشیوں اور غیر ملکی جنگجوئوں کے درمیان خونی جھڑپیں بھی ہوتی رہیں لیکن جب ریاست اپنے لوگوں کا تحفظ نہ کرسکی اور وہاں کی سول انتظامیہ بھی خوفزدہ ہوکر ان خارجی عناصر کو راستہ دینے لگی تومقامی عوام خاموش ہوگئے۔ہمارے بعض دینی حلقے بھی جہاد کے نام پر گمراہ ہوئے ۔
امارات اسلامیہ افغانستان’امارت اسلامیہ ازبکستان ‘چین اور نہ جانے کہاں کہاں کی خیالی اسلامی ریاستوں کے ہیڈکوارٹرز یہاں سرگرم تھے لیکن ظلم کب تک جاری رہ سکتا ہے۔جب یہ لوگ اپنے ایجنڈے پر آگے بڑھے اور انہوں نے ریاست کے معاشی اور دفاعی اہداف کو تواترکے ساتھ نشانہ بنانا شروع کردیا تو پھر ایک ہی سوال تھا۔ملک انہیں دنیا ہے یا اس کی حفاظت کرنی ہے۔فیصلہ ہوگیا۔آپریشن کی حکمت عملی طے ہوگئی۔جراحی کے سارے عمل کو صرف اوپر کے چند فیصلہ سازوں تک محدود رکھنا ہی بہترین حکمت عملی ہوتی ہے۔ایسا ہی ہوا اور دشمنان قوم اور عوام کو اچانک آلیا گیا۔تحریک انصاف کی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ آپریشن کا اعلان دہشت گردوں کو بھاگنے اور محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کا موقع دینے کے مترادف ہوتا۔ جب گھیرا مکمل کر لیا گیا تو اب ضرورت تھی کہ سول آبادی کو بچایا جائے۔ فوجی حکمت عملی کی سب سے خوبصورتی ہی یہی کہ وہاں کی آبادی کا مکمل طور پر انخلاء ہوچکا ہے۔جو وہاں ہیں وہ صرف لڑنے والے گروہ ہیں۔ متحارب گروہوں کا خاتمہ لمحہ وار جاری ہے اور قرائن بتا رہے ہیںکہ بیس کروڑ پاکستانیوں کو خوفزدہ کرنے والے بیس دنوں میں ہی دم دبا کر بھاگ رہے ہیں۔درجنوں پکڑے گئے ہیں اور سینکڑوں ہلاک ہوچکے ہیں اور اس وقت تک ہلاک ہوتے رہیں گے جب تک یہ فتنہ ختم نہیں ہوجاتا۔
شمالی وزیرستان کے لوگوں نے اگر خودکش بمبار بننے کا فیصلہ کرنا ہوتا تو وہ بنوں کی طرف ہجرت نہ کرتے’افغانستان چلے جاتے۔ اب تو وہ اسی ہزار جو افغانستان چلے گئے تھے اور جن کو افغان حکومت نے اپنا ایجنٹ بنانے کے لئے ایک ایک لاکھ روپے بھی دیئے تھے وہ بھی واپس آرہے ہیں۔قبائلی عوام غریب ضرور ہیں لیکن وہ ہمارے دانشوروں کی طرح سودے بازیاں نہیں کرتے۔پاکستان کے ساتھ ہمیشہ کھڑے تھے’کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔اس لئے کہ جتنی وہ اس ملک سے محبت کرتے ہیں اتنا یہ ملک بھی ان سے محبت کرتا ہے۔
دس لاکھ سے زائد ہمارے یہ محسنین ‘بنوں’کوہاٹ’کراچی’ لاہور اور راولپنڈی اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ان کی رجسٹریشن ہی سب سے بڑا مسئلہ تھا کیونکہ شفاف طریقے سے ہر گھر تک امداد پہنچانا ایک چینلج ہوتا ہے۔دوہری رجسٹریشن کی شکایات بھی موجود تھیں۔جب تک رجسٹریشن نہ ہوتی امدادی ادارے کوئی بھی قابل ذکر دادرسی نہ کرپاتے۔اب حکومت کی طرف اضافی عید پیکج کا بھی اعلان کردیا گیا ہے۔ خیراتی اور امدادی اداروں کی طرف سے روزانہ ٹنوں کے حساب سے خوراک اور راشن پہنچ رہا ہے اور یہاں ہلال احمر جیسے ادارے انتہائی منظم اور مربوط انداز میں اپنے حصے کی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔پینے کے صاف پانی کی فراہمی بھی ایک اہم ضرورت ہے۔ بھلا ہو ہلال احمر کے چیئرمین جناب ڈاکٹر سعید الٰہی کا کہ انہوں نے بیس ہزار لٹر یومیہ کی پیداواری صلاحیت کا واٹر فلٹر پلانٹ لگا دیاہے۔متاثرین ٹھنڈا اور صاف پانی پیتے ہیں اور اس کا اہتمام کرنے والوں کو دعائیں دیتے ہیں۔
کہنے کا مقصد یہ کہ متاثرین کی دلجوئی اس لئے نہیں کہ یہ لوگ کہیں مخالف ہو کر خودکش حملہ آور نہ بن جائیں بلکہ اس لئے کہ یہ لوگ واقعتاً ہمارے محسن ہیں۔انہیں آئی ڈی پیز مت لکھو۔یہ محسنین پاکستان ہیں۔یہ کبھی خودکش بمبار نہیں بن سکتے۔بہت جلد باعزت واپسی اور بحالی کے منصوبے پر کام شروع ہونے والا ہے۔