Aug
08
|
Click here to View Printed Statement
پاکستان کی بنیادوں میں تو ایسی کوئی کجی نہیں تھی۔اس کے بانیوں کا کردار انتہائی شفاف اور اُجلا تھا۔ کوئی ایک نام بتا دوجس نے دھونس’دھاندلی’زبردستی اور غیر جمہوری رویے کا مظاہرہ کیا ہو۔ بانی پاکستان کی اصول پسندی اور جمہوریت پسندی کی دُنیا معترف ہے۔محترمہ فاطمہ جناح کی زندگی بھی جمہوریت کی بالادستی کی جدوجہد میں گزری۔ اداروں کی مضبوطی اور پارلیمان کی بالادستی کے لئے قائد نے کتنی شدت کے ساتھ نصیحتیں کی تھیں۔ یہ دھرنے’پُرتشدد مظاہرے اور مُلکی اداروں کو للکارنے کا کلچر تو بعد کی پیداوار ہے۔سڑکوں پر آنا’راستے بند کردینا’دلیل کی بجائے طاقت کے زور پر اپنے مطالبات منوانا اور ”تڑیاں” لگانا کہ ”اگر مجھے بند کیا گیا تو میں پورا ملک بند کردوں گا” اور اپنے کارکنوں کو انگیخت کر نا کہ ”انقلابی جتھے پولیس والوں کے گھروں میں گھس جائیں اور پندرہ جانوں کا بدلہ پندرہ جانوں سے لیا جائے گا” یہ کونسے اصلاح پسند گروہ ہیں جو حکومت گرانے کے لئے اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے پر تُل گئے ہیں۔حکمرانوں کو اب پسینے آرہے ہیں ۔شروع میں ہی ”بندے دے پُتر” بن کر رہتے’ خواجہ آصف بھی نوری نت بنے ہوئے تھے۔ پوری فوج کو دھمکایا جارہا تھا۔”ہم دلیل والوں کے ساھ ہیں غلیل والوں کے ساتھ نہیں”۔اورپرویز رشید صاحب دبئی یاترا کرکے فوج اورآئی۔ایس۔آئی کے خلاف ایک میڈیا گروپ کی پیٹ تھپتپھاتے تھے۔کیا حاصل ہوا؟۔ وطن کے محافظوں کی رُسوائی کرنے والے چینل کو سپورٹ کرکے فوج کو کیا پیغام دیا گیا اور چند دنوں میں ہی ”جھاگ” کی طرح بیٹھ گئے۔ اتنی ہمت تھی تو پھر ”غلیل والوں” کے سامنے ڈٹ جاتے۔
راتوں کو معافیاں تلافیاں اور دن کو بڑھکیں۔فوج کی ترجمانی نہیں لیکن حقیقت یہ کہ ‘دن دے ویلے’ جیڑے لوکی تیرے عیب سناندے نیں۔راتیں کپڑا منہ تے لے کر تیرے کول جا بھیندے نیں۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ اس ملک کے سیاستدانوں کا پرابلم کیا ہے۔جمہوری طور طریقوں سے انتخاب لڑنے والے اپنے مزاج کے اعتبار سے کس قدر آمریت پسند ہیں۔گردنوں میں موٹے موٹے سریے پھنسائے ہوئے میاں کی بجائے اللہ میاں بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ عمران خان کس نئے پاکستان کی بات کر رہے ہیں۔دروغ گوئی کا بھی کوئی ڈھنگ ہوتا ہے۔ اگر 11مئی کو منتخب ہوئے والی حکومت جعلی ووٹوں کا نتیجہ ہے اور اگر عوام کا مینڈیٹ چرا لیا گیا ہے تو اس چوری کا جناب خان صاحب کو پہلے سے ہی ادراک تھا۔ پھر خیبرپختونخواہ میں جعلی حکومت بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ صبر کر لیتے اور کہتے کہ نہیں جناب میں نہیں مانتا۔ الیکشن دوبارہ کرائے جائیں۔ اسمبلی کے پہلے اجلاس میں میاں نوازشریف کو مبارکبادیں اور اب صلواتیں۔ ایک سال میں آخر اس ملک کو کیا ہوگیا جو پچھلے 68برسوں میں نہیں ہوا۔اچانک ایک طوفان برپا کردینا اور بجلی ‘مہنگائی اور بے روزگاری کے ستائے عوام کا بچا کھچا سُکھ چین بھی چھین لینا کہاں کی اور کیسی تبدیلی ہے۔ ذات۔ ہاں ہر کسی کی ذات سب سے اول ہوگئی ہے۔ہر کوئی اپنی اپنی انا کے پنجرے میں گھات لگائے بیٹھا ہے۔لوگوں نے سُکھ کا سانس لیا تھا کہ چلیں اب پانچ برس تو سکون سے گذریں گے اور درمیان میں انتخابی عذاب میں مبتلا نہیں ہونا پڑے گا۔ لیکن یہ عوام بے بس ہیں۔ انقلابیوں اور نئے پاکستان کے معماروں کو تازہ خون چاہیے۔ان کے پاس جوانوں اور جنونیوںکے جتھے ہیں وہ انہیں بھڑکا کر اسلام آباد کو فتح کرسکتے ہیں ۔لاہور کو روند سکتے ہیں ۔ وہ اپنی فتح کے لئے ہر کسی کو شکست دے سکتے ہیں۔ بقول شاعر ان کی نفسیات اس طرح کی ہوگئی ہے کہ’ ایک دوسرے سے بچ کر نکلنا محال تھا ایک دوسرے کو روند کر آنا پڑا ہمیں اور اپنے دیئے کو چاند بتانے کے واسطے بستی کا ہر چراغ بجھانا پڑا ہمیں چودہ اگست کو کیا ہوگا؟ ہر زبان پر یہی سوال ہے۔انائیں انائوں سے ٹکرائیں گی۔ذاتی مفادات قومی مفادات کو دبوچ لیں گے’لاشیں گرانے والے تیار بیٹھے ہیں۔اگر نیک دل اور نرم مزاج لوگوں کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں تو ”بوٹوں” کی آوازیں ایک بار پھر گونجیں گی۔ یہ کہانی یوں ہی چلتی رہے گی۔”سیاسی گنڈ کپ” جیلوں میں ہوں گے اور گولی والے ان کو ”ٹھڈے” مار رہے ہوں گے۔ سب اپنی اپنی اخلاقی اور سیاسی فتح کے مرثیے لکھیں گے۔ میرا ملک پھر خون کے آنسو روئے گا اور وہ بھی اپنی آزادی کے دن ! سنو! اس ملک نے آپ کو حکمران بنایا۔کسی کو صوبے کا اقتدار دیا کسی کو مرکز میں براجمان کرایا۔ سب ایک ہی کلاس کے لوگ ہو۔ سب اہل اقتدار ہو۔ عوام صرف اتنا چاہتے ہیں کہ اس ملک کی دنیا میں مزید بے عزتی مت کرو۔ اس مُلک کو معاف کردو! معاف کردو!