Aug
12
|
Click here to View Printed Statement
اثر ہوتا ہے ۔تقریروں اور تحریروں کا اثر ہوتا ہے۔ جب آپ بار بار لوگوں کو بتائیں کہ ”ملک مکمل طور پر آزاد نہیں ہے اور اس پر ”بادشاہت” نے قبضہ کر لیا ہے تو ان لفظوں کی معصوم انسانی ذہنوں میں خوفناک تصاویر بننا شروع ہوجاتی ہیں۔بادشاہ بڑا ظالم ہوگا۔ اپنے مخالفین کو اندھے کنویں میں ڈالوا دیتا ہوگا۔ جو بھی اختلاف کرے گا اسی وقت سرتن سے جُدا ہوجائے گا۔بادشاہ کی سینکڑوں باندیاں ہوں گی۔محل سرا میں گانے بجانے اور رقص و سرور کی محفلیں سجتی ہوں گی۔ کتنے جذبوں کا ارمان ہوتا ہوگا۔بادشاہ ہاتھی پر چڑھ کر شکار کو جاتا ہوگا اور اس کے سپاہی بے گناہ جانوروں کو پکڑ کر اس کے سامنے لاتے ہوں گے اور وہ گولی چلا دیتا ہوگا” ایسے ظالم بادشاہ کے خلاف جنگ کرنا جہاد ہے
اور ایک لیڈر اس جہاد پر نکل آیا ہے وہ اس وقت ”فرعون” کے خلاف ”موسیٰ” بن کر سامنے آگیا ہے۔قوم کو اب ”موسیٰ” کا ساتھ دینا ہے۔ چودہ اگست کو پاکستانی قوم کی ”چھینی گئی آزادی” اس ”فرعون” سے واپس لے لینی ہے۔چاہے اس کام میں جان چلی جائے۔ جب لیڈر خود گولی کھانے کا اعلان کر رہا ہے تو پھر پیچھے مت ہٹ جائو۔جوان جذبہ عہد کرتا ہے کہ میں ہر حال میں چودہ اگست کو ”لبیک یا موسیٰ” کہتا ہوا جائوں گا اوربادشاہ کے گلے میں رسی ڈال کر اسے ”شاہی تخت” سے نیچے گھسیٹ لائوں گا۔ اس طرح کے خواب آنا شروع ہوجاتے ہیں۔اس طرح کے خیالات جب جگہ پالیتے ہیں تو جذباتی نوجوانوں کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔ ہر طرح کی آزادی کے باوجود اسے اپنی ” غلامی” سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ وہ خود کو خوددار قوم کا فرد سمجھ کر ”آزاد” ہوجانا چاہتا ہے۔گولیاں چلتی ہیں۔لاشیں گرتی ہیں اور اقتدار کے مہرے تبدیل ہوجاتے ہیں۔وزیراعظم نوازشریف کی جگہ وزیراعظم عمران خان کی تختیاں سج جاتی ہیں اور دو سال بعد ”آزاد” روحوں کو پھر خیال آتا ہے کہ وہ کس چالاکی کے ساتھ غلام بنا لئے گئے ہیں۔
غلامی۔ ہماری نئی نسلوں اور خصوصاً جناب عمران خان صاحب کے ووٹرز نے غلامی دیکھی ہی نہیں ۔غلامی دیکھنی ہے تو فلسطین اور کشمیر میں چلے جائیں آپ کو واقعی سمجھ آجائے گی کہ کیا آپ غلام ہیں یا آزاد۔ پانچ سال کی غلامی بے معنی سی بات ہے۔صدیوں کی غلامی کی بات کریں۔ نیلسن منڈیلا کی روح سے پوچھیں کہ آزادی اور غلامی میں فرق کتنا ہے۔
اصطلاحات بے معنی ہوجائیں تو پھر صرف ہیجان پیدا ہوتا ہے۔پاکستان کی بدقسمتی دیکھئے کہ مادر پدر آزادی کے باوجود بھی ایک پارٹی کے لوگ یہ یقین کرنے لگے ہیں کہ وہ آزاد نہیں ہیں۔یعنی اگر عمران خان صاحب وزیراعظم ہوں تو پھر یہ ملک آزاد ہے اور اسے حق ہے کہ وہ چودہ اگست کو جشن آزادی منا لے بصورت دیگر قوم ”بے غیرت” ہے اور اسے جشن آزادی منانے کی بجائے اپنی آزادی چھین لینی چاہیے!۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ اگر دل ہوتا تو مسلمانان ہند کی صدیوں پر پھیلی جدوجہد کے نتیجے میں 1947ء کو حاصل ہونے والے اس آزادی کو متنازعہ نہ بنایا جاتا۔ جو دن اس قوم کو متحد کرنے کے لئے بنا وہ بھی اس ظالم سیاست کے ہاتھوں انتشار کا دن بن گیا۔ ایسے ایسے نعرے’ اشتہارات اور تقاریر سننے اور دیکھنے کو ملیں کہ آنکھیں شرم سے جھک گئیں۔ اقتدار کی جنگ میں قائداعظم کے دیئے ہوئے یوم آزادی کا یوں مذاق اڑتے دیکھ کر دل بجھ گیا ہے۔ کیا کرسی اتنی اہم ہے کہ اس کے لئے ہم اپنے قومی وقار کے اس عظیم دن کو لڑائی جھگڑے کی نذر کریں ۔ عوام نے بددل ہونا ہی تھا۔ جس نے قومی جھنڈا لہرایا اسے پی ٹی آئی والوں نے حکومتی ہمنوا سمجھ کر نفرت کا اظہار کیا۔ لوگ سہم گئے۔ محتاط ہوگئے۔ جشن آزادی صرف سرکاری سطح تک محدود رہا۔ بی بی سی نے طنز کیا”’پٹھان کی طرح عمران خان بھی ایک کیفیت کا نام ہے”کاش کہ یہ کیفیت چودہ اگست کی بجائے دو چار دن پہلے یا بعد میں طاری ہوئی ہوتی۔!
پاکستان کا کوئی ایک دشمن ہے ۔ ہزاروں دشمن ہیں۔حکومت کے اندر ایسے ایسے لوگ ہیں جو ”بادشاہت” کا خاتمہ چاہتے ہیں ۔ان کو ”آمریت” والوں نے سہانے خواب دکھا رکھے ہیں۔ سات اگست کو ایک قومی روزنامہ میں شائع ہونے والی یہ خبر کہ عمران اور طاہر القادری کے پیچھے آئی ۔ایس۔آئی کے سابق سربراہ شجاع پاشا کا ہاتھ ہے تو پھر آزادی واقعی غلامی ہے۔
اس قوم نے جو آزادی ہزاروں’ لاکھوں انسانوں کی قربانیاں دے کر لی اور اس کی حفاظت کے لئے مسلح افواج آج بھی اپنی جانیں نثار کر رہے ہیں۔ اس آزادی کو نوجوانوں کے ذہنوں میں مشکوک مت کرو۔شوق سے اقتدار کی جنگ لڑیں کہ سیاست دان بنتا ہی اسی مقصد کے لئے ہے لیکن یہ وطن صرف آپ کا نہیں ہے۔ اس میں بیس کروڑ انسان رہتے ہیں ۔ اگر ان کی نظروں میں یہ آزادی مشکوک اور بے فائدہ ہوگئی تو پھر تم نے کس ملک کا وزیراعظم بننا ہے؟