Oct
24
|
Click here to View Printed Statement
ایک بار پھر خطہ ء عراق وشام سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ داعش نامی تنظیم اپنے مفتوحہ علاقوں میں مردوں کو قتل کر رہی ہے اور مال غنیمت کے طور پر ہاتھ لگنے والی عورتوں کو فروخت کیا جارہا ہے ۔ہوسکتا ہے کہ ایسی خبروں میں مغربی ذرائع ابلاغ کی طرف سے کچھ مبالغہ بھی ہو لیکن مختلف ذرائع دور جاہلیت والے اس فعل کی تصدیق کرچکے ہیں اور مذکورہ تنظیم کی طرف سے کوئی تردید تاحال سامنے نہیں آئی۔داعش یا دولت اسلامیہ کی طرف سے جاری ہونے والے ہر طرح کے بیانات شائع ہورہے ہیں اور سوشل میڈیا کسی کنٹرولنگ اتھارٹی کا پابند نہیں اس لئے عورتوں کی فروخت کے حوالے سے تواتر کے ساتھ شائع ہونے والی خبروں کی اگر تردید کی جاتی تو یقیناًوہ بھی کسی نہ کسی طرح منظر پر آجاتی۔پاکستان کے مذہبی حلقوں نے داعش کے ان افعال کو نہ صرف غیر اسلامی قرار دیا بلکہ غیر انسانی بھی کہا ہے۔ تصاویر بھی سامنے آئی ہیں او ان بدقسمت عورتوں کو قطار میں بٹھایا دکھایا گیا۔ یہ خبریں اور تصویریں دیکھ کر انسانی دماغوں پر ایک سناٹا سا چھا جاتا ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور اور اسلامی تعلیمات کے عام ہونے کے باوجود بھی یہ سب کچھ ممکن ہے؟ غیر ملکی دانشوروں کی متفقہ رائے بھی سامنے آئی ہے کہ عورت کے رہنے کے لئے اس دنیا پر بھارت سب سے نامناسب ملک ہے۔ یہ 2014ء ہے اور اب جا کر ہندوستان کے اندر عورت کے حق میں قوانین بننے کا عمل شروع ہوا ہے۔اس پربھی وہاں کے روایتی ہندو حلقے خوش نہیں ہیں۔پاکستان میں قوانین کے اعتبار سے عورتیں بہت بہتر پوزیشن میں ہیں۔ریاست پوری طاقت کے ساتھ ایسے مسلح گروہوں کے قلع قمع میں مصروف ہے جو عورت کو کسی لحاظ سے معاشرتی ترقی میں کوئی کردار ادا کرنے نہیں دینا چاہتے۔ملالہ یوسف زئی کا زخمی چہرہ بھی ایسی طاقتوں کے چہرے بے نقاب کر رہا ہے۔
امریکہ اور یورپ میں عورت کی خودمختاری کے نام پر ایک گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے۔پاؤں کے ناخن سے لے کر سر کے بالوں تک عورت کو ایک اشتہار بنا کر اس کی بااختیاری کا استحصال ہورہا ہے۔ ریپ کی بڑھتی وارداتوں کا نتیجہ ہے کہ مغرب کے کاروباری ادارے ایسے آلے تیار کر رہے ہیں کہ عورت خطرہ محسوس کرتے ہی اگربٹن دبا دے تو اس کی حفاظت کا بندوبست ہوجائے گا۔
یہ وہ چند تلخ حقائق ہیں جن کو سرسری انداز میں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عورت کے حوالے سے اس وقت کوئی بھی ایسا معاشرہ موجود نہیں ہے جسے ہم مثالی کہہ سکیں۔
عورت کو اختیار اسی صورت مل سکتا ہے جب اس کے بارے میں مرد اور عورت دونوں کے اندرنسوانی احترام کا قوی احساس جڑ پکڑ سکے۔ عورت قابل احترام ہے اور بہت سے حوالوں کے اعتبار سے مرد کے برابر ہی نہیں بلکہ مرد سے بالاتربھی ہے۔
ہمارے ایک دوست جو ایک سیاسی مذہبی جماعت کے امیر ہیں انہوں نے بتایا کہ ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی اور پھر اٹھارہ برس تک کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کے حضورؐ گڑگڑا کر دُعا مانگی ’’بیٹا ہو یا نہ ہو تیری رضا ہے۔لیکن مجھے ایک اور بیٹی دے دو تاکہ میں جنت کا حقدار ہوسکوں‘‘۔ یہ ہے وہ احساس جسے قرآن اور اسوہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں اور انسانوں کے اندر بیدار کرنے کی کوشش کی بلکہ واضع احکامات دیئے۔حدیث مبارک ہے کہ جس نے تین بیٹیوں کی اعلیٰ تعلیم وتربیت (اچھی پرورش) کی اس پر جنت واجب ہوگئی۔ آپ نے پڑھا ہوگا کہ اس پر بعض اصحابہؓ پریشان ہوئے اور پوچھا یا رسولؐ اللہ جس کی دو بیٹیاں ہوں گی کیا وہ جنت سے محروم رہ جائے گا ‘آپؐ نے فرمایا نہیں ’’جس نے دو بیٹیوں کی بھی اچھی طرح پرورش کی وہ بھی جنت کا مستحق ٹھہرا‘‘۔
اب اچھی طرح پرورش کا معانی بھی سمجھ لیجئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ علم کا حصول ہر مسلمان عورت اور ہر مسلمان مرد پر فرض ہے۔گویا عورت کو تعلیم دلوانا عین فرض ہے اور تربیت کا ایک حصہ ہے۔ اسی طرح فرمایا کہ صحت مند مومن کمزور مومن سے بہتر ہے۔یہاں مومن جمع کے صیغے میں استعمال ہوا ہے۔ لہٰذا بچوں اور عورتوں کی صحت پر خرچ کرنا بھی منشاء اسلام ہے ۔ اسلام عورت کے حوالے سے مردوں کے اندر یہ احساس پیدا کرنا چاہتا ہے کہ وہ تعلیم و تربیت کے لحاظ سے نہ صرف مردوں کے برابر ہیں بلکہ جنت بیٹیوں کے ذریعے ملے گی بیٹوں کے ذریعے نہیں ۔دیکھئے کس طرح اسلام نے عورت کو مرد پر بالادستی دے دی ہے۔ بیٹی کو رحمت قرار دینے کا مقصد بھی مردوں کی نفسیاتی بالادستی کو چیلنج کرنا تھا۔
حضرت خدیجہؓ کا اسلام کے حوالے سے شاندارکردار ذہن نشین رہنا چاہیے۔ آپؓ تجارت پیشہ تھیں‘آپ کے شوہر ؐ آپ سے کاروباری ہی نہیں سماجی اور تبلیغ اسلام کے حوالے سے مشاورت فرماتے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عقل و دانش کا تعلق صرف مرد سے نہیں۔ عورت بھی مشیر ہوسکتی ہے ‘ اسی طرح بے شمار اصحابیات کی معاشی‘ سماجی اور مذہبی سرگرمیوں سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے۔
حجاب اور پردے کے اعتبار سے بھی پہلے مردو کو حکم دیا گیا کہ وہ نگاہیں نیچی رکھے پھر عورت کو ستر ڈھانپنے کا حکم آیا ہے۔وراثت کے قوانین پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ اسلام مرد کو کنگال اور عورت کو دولت مند دیکھنا چاہتا ہے۔ باپ کا حصہ بھی لے اور شوہر سے بھی معاشی فوائد سمیٹے۔گویا معاشی خودمختاری کی اسلام نے ایسی بنیاد رکھ دی کہ اس پر اگر سو فیصد عمل ہو تو شائد سارے مرد عورتوں کے مقروض ہوجائیں۔ چونکہ آپ لوگ تعلیم یافتہ ہیں اور عورتوں کے حوالے سے اسلام کی طرف سے دی جانے والی خودمختاری کے ہر پہلو سے آپ واقف ہیں اس لئے تفصیل حذف کر رہا ہوں۔آج اگر آپ نکاح نامہ کو غور سے پڑھیں تو اس میں واضح شق موجود ہے جس میں اگر لڑکی چاہے تو ’’عورت کو طلاق حق‘ والی شرط رکھ سکتی ہے۔ اگر مرد طلاق دے سکتا ہے تو عورت بھی خلع مانگ سکتی ہے۔
اصل مسئلہ کیا ہے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کو عام فہم کیا جائے اور قبائلی روایات اور عرب رسم و رواج کو جو لوگ اسلام بنا کر پیش کرتے ہیں ان کی اس جعل سازی کو بے نقاب کیا جائے۔ آئین پاکستان میں عورتوں کی وراثت سے انکار ‘دفتروں اور مارکیٹوں میں ان کو خوفزدہ کرنا یا ان کو معاشی دوڑ میں جنس کی بنیاد پر آگے بڑھنے سے روکنا سب قابل گرفت جرائم ہیں۔ ہمارے ہاں جہاں باقی قوانین پر کوئی عمل نہیں ہورہا ہے ایسے ہی عورتوں کے سماجی ‘معاشی تحفظ کے حوالے سے قوانین پر بھی عمل نہیں ہورہا۔لیکن پاکستان میں پھر بھی ایک عورت وزیراعظم بن سکتی ہے‘جج بن سکتی ہے‘ ڈی سی بن سکتی ہے‘سائنسدان بن سکتی ہے‘جرنیل بن سکتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اینکر پرسن بن سکتی ہے۔
یہ ایک طویل سفر ہے۔پاکستان کی عورتوں نے بڑی تیزی سے یہ سفر طے کرنا ہے۔ بہت بڑی خوشخبری ہے کہ ہر امتحانی نتائج میں لڑکیاں شاندار کارکردگی دکھا رہی ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پاکستان کا مستقبل جہالت نہیں روشنی میں آنکھ کھولے گا۔ ذرائع ابلاغ کا بہت بڑا کردار ہے اساتذہ کا انتہائی ذمہ دارانہ کردار ہے۔ دیہات کی عورت کو شہر کی عورت نے آگے بڑھانا ہے۔ اس ملک کو معاشی خودمختاری بھی عورت نے ہی دلانی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ اسمبلی میں بھی مخصوص نشستوں پر ایسی خواتین کو آگے لائیں جو معاشرے کے اس بڑے حصے کی حقیقی ترجمانی کرسکیں۔معاشرے کا بناؤ اور بگاڑ اب عورت کے ہاتھ میں ہے۔ بیٹی رحمت ہے اور اس بکھرے‘کٹے پھٹے اور لڑتے جھگڑتے پاکستان کو اس رحمت سے بہت سی اُمیدیں ہیں۔