Dec
08
|
Click here to View Printed Statement
ایسا کبھی ہوا نہیں کہ دنیا سے شر مکمل طورپر ختم ہوگیا ہو۔انسان کے اندر شر کی قوتیں خیر کی طاقتوں سے ہمیشہ نبردآزما رہتی ہیں ۔آپ اسے حضرت انسان کی فطرت کہہ سکتے ہیں ۔ان شرانگیز طاقتوں کو آپ نیگیٹیو فورسز کا عنوان دے سکتے ہیں ۔قرآن انہیں شیطانی طاقتوں کا نام دیتا ہے ۔ہر منفی سوچ ،ہر تخریبی تصور ہر انسان دشمن منصوبہ ،ہرابلیسی حربہ چاہے اس کا محل وقوع انسان کی اپنی ذات ہو ،اس کا ماحول ہو،ملک ہویاسرزمین ہو ،شیطان ہی کی کارستانی قرار پائے گی۔ہوس لالچ،ظلم ،استبداد ،بدعنوانی ،بدامنی،بد عہدی ،بے وفائی ،دھوکہ دہی ،نوسر بازی ،بزدلی ،منافقت،ہیجان انگیزی ،خیانت،جھوٹ ،فراڈ ،بے ادبی ،فریب کاری ،بعض وعناد،انا پرستی ،چوری ،ڈاکہ زنی ،قتل وغارت اور وحشت وبربریت یہ تمام وہ بیماریاں ہیں جنہیں شیطان نے ایجاد کیا ہے اور وہ کمال ہوشیاری کیساتھ انسانی دل ودماغ میں ان کی پیوندکاری کرتا ہے اور انسان کو شرکے راستے پر ڈال دیتا ہے ۔تشکک اور بے یقینی ،مایوسی اور غفلت جیسے ہتھیاروں سے مسلح ہوکر شیطان جب حملہ آور ہوتا ہے تو بڑے بڑے پختہ عزم انسان ریت کا ڈھیر ہوجاتے ہیں ۔شیطان کا تصور ہر مذہب اور عقیدے کے پیروکاروں میں اپنے اپنے ناموں اور حوالوں سے موجود ہے ۔قرآن نے اس تصور کو بڑے بلیغ پیرائے میں بیان فرمایا ہے ۔”بے شک شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے تم بھی اسے دشمن سمجھو“ حدیث نبوی ہے ‘
”شیطانی وسوسے تمہارے وجود میں خون کی طرح گردش کرتے ہیں “لیکن فطرت نے انسان کو شیطان کے مقابلے میں تنہاءنہیں چھوڑا ،یہ ہرگز نہیں کہ انسان شیطان کے مقابلے میں بے بس پیدا کیا گیا ہے ۔خالق نے انسان کو پیدا کرتے وقت پانچ چھ فٹ قد کے اس جسم کے اندر ہی وہ آلہ لگادیا ہے جو انسان کو قدم قدم پر آگاہ کرتا ہے کہ تم اب شیطانی قوت کے زیر اثر آرہے ہو۔جس طرح گاڑی اوورسپیڈ ہونے پر سرخ رنگ کی بتی اور آلارم بجنے شروع ہوجاتے ہیں اسی طرح انسان کے اندر ضمیر نام کا ایک آلارم بجنا شروع ہوجاتا ہے ۔غافل سے غافل انسان بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے اچھائی اور برائی میں تمیز نہیں ہے ۔وہ جنگل میں رہتا ہو ۔یا بازاروں کے شورشرابے میں زندگی بسر کرتا ہو،حرف شناس ہویا ان پڑھ ۔رنگ ،نسل ،زبان اور عقیدے کی تفریق کے بغیر جوروح بھی لباس فطرت میں ڈھلی ہے اسے ضمیر کا آلہ لگاکر بھیجا گیا ہے ۔ارشاد ہوتا ہے ‘
”ہم نے انسان کو پیدا کیا اور جانتے ہیں اس کا نفس جن وسوسوں سے دو چار رہتا ہے ۔ہم تو اسکی رگ حیات (شاہ رگ )سے بھی قریب تر ہیں “
قرآن نے احسن تقویم کا ٹائٹل ہی انسان کو اسی لئے عطا کیا ہے کہ وہ واحد جاندار ہے جو اچھائی اور برائی میں تمیز کرسکتا ہے ۔ جس طرح شیطان منفی ہتھکنڈوں سے مسلح ہے اسی سطح انسان اپنے ضمیر کی زبردست طاقت سے مز ّین ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ابتدائے آفرینش سے لیکر آج تک شر اور خیر باہم نبردآزما رہتے ہیں ۔ایسا کبھی ،کسی دور میں نہیں ہوا کہ شر غالب آجائے اور خیر کی قوت مفتوح ہوجائے ۔ایسا ہوتا تو انسانیت کا قافلہ بیچ راہ کے فنا ہوچکا ہوتا ۔آج ساڑھے چھ ارب انسانوں کا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ خیر کی طاقتیں مفقودنہیں بلکہ موجود ہیں ۔بقول اقبالؒ
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرارِ بوا لہبی