Dec
18
|
Click here to View Printed Statement
کسی بھی معاشرے اور تہذیب میں جب تک خیر کی قوتیں غالب رہتی ہیں معاشرے تباہ نہیں ہوتے ۔بداطمینانی نہیں پھیلتی اور انتشار گلی کوچوں میں ننگا نہیں ناچتا ۔ملک ،سلطنت اقتدار اور اختیار یہ وہ انعامات ہیں جو فطرت خوش ہوکر کسی قوم ،گروہ یا فرد کیلئے ممکن بنادیتی ہے ۔لیکن جہاں یہ انعامات ہیں وہیں آزمائش بھی ہوتی ہے ۔پاکستان ،ایک نیا ملک ،ایک انعام تھا لیکن ہم نے اپنے زندہ ضمیروں کو ہوس اور لالچ کے ہتھوڑے مارمارکر ادھموا کردیا اور آج یہی انعام ہمارے لئے بہت بڑی آزمائش بن چکا ہے ۔جب گھر کے باسیوں کو اپنے گھر کے درودیوار سے خوف آنے لگے تو اس سے بڑی آزمائش کیا ہوگی ۔دانشور اور غم خوار حلقے ہمیں کسی بڑے قومی حادثے سے بچانے کیلئے نت نئے فارمولے اور حل پیش کرتے ہیں ۔کوئی گڈ گورنس کی بات کرتا ہے ۔کسی کو صدارتی طرز حکومت میں مسائل حل ہوتے دکھائی دیتے ہیں ،کئی مغربی جمہوریت ہی کو کامل حل ثابت کرتے ہیں ۔کسی کا خیال ہے کہ سخت ترین قانون ہمیں شیطانی بیماریوں سے نجات دلاسکتا ہے ۔کسی کو تمام مسائل کی جڑ فوجی اقتدار دکھائی دے رہا ہے ۔کوئی اسلامی انقلاب کا جھنڈا لہرانے میں نجات کی امید لگائے بیٹھا ہے ۔غرض جتنے ذہن ہیں اتنے ہی فارمولے گردش کررہے ہیں ۔پاکستان اس وقت عملی طورپر تیسری دنیا کا چوتھے نمبر کا ملک ہے جس میں ہر تخریبی قوت ،ہر منفی جذبہ اور ہر شیطانی حربہ پوری طاقت اور قوت کیساتھ پھل پھول رہا ہے ۔شرکے مقابلے میں خیر دبکا بیٹھا ،منتظر فردا ہے ۔!وہ کونسا جذبہ ہے جو ہمیں جھوٹ بولنے سے روکے گا ۔جو ہمیں ذخیرہ اندوزی سے بازرکھ سکتا ہے ۔ہم کیوں ہوس پرستی چھوڑیں ۔کس کی خاطر بدعنوانی دھوکہ دہی ،بُغض وعناد سے باز رہیں ؟منافقت ترک کریں ؟ایک دوسرے کو روند ڈالنے کی روش ترک کرنے سے کیا حاصل ہوگا ؟۔ضمیر کو جگاڈالنے کا فائدہ کیا ہے ؟نت نئی فریب کاریاں کس کی خاطر چھوڑ دی جائیں ؟۔یہی وہ سوالات ہیں جو ہمیں بحیثیت قوم تذبذب میں مبتلا رکھتے ہیں اور ہم اپنی اس جنت نظیر سرزمین کو شیطانی جذبوں کے سبب جہنم زار بنارہے ہیں ۔کوئی قانون ۔کوئی ضابطہ ،کوئی اتھارٹی ،کوئی خوف اور کوئی شوق ہمیں اس وقت تک راہ راست پر نہیں لاسکتا جب تک ہم بحیثیت قوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے زندگی کے آغاز اور انجام کے بارے میں ارشاد فرمائے گئے احکامات پر کامل یقین پیدا نہیں کرتے ۔ارشاد ہوتا ہے ۔
”اہل کتاب اور مشرکین میں سے جن لوگوں نے کفر کیا وہ یقیناجہنم کی آگ میں جائیں گے اور ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی اور وہ اپنے رب سے راضی ہوئے۔ یہ سب اس کےلئے ہے جس نے اپنے رب کا خوف کیا ہو“(البینہ)۔”پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا“(الزلزال)۔
جب مجھے یقین ہوگا کہ مجھے دنیا میں کئے گئے ہر عمل کا روز محشر حساب دینا ہے تو میں کسی سماجی قانون ،کسی داروغے کے نہ ہوتے ہوئے بھی خیر پر کار بند رہوں گا ۔جب مجھے یقین ہوگا کہ شیطانی قوتوں کے تابع کئے گئے افعال مجھے دہکتی آگ میں جلائیں گے تو مجھے میرے اندر کا انسان برائیوں سے روکے گا ۔جب مجھے یقین ہوگا کہ رزق حلال کمانے سے مجھے جنت ملے گی جس میں میرے وہم وگمان سے بھی کہیں زیادہ نعمتیں مختص ہوں گی تو پھر میں چند اضافی ٹکوں کے عوض کسی کا حق نہیں ماروں گا ۔زندگی بعد از موت ،جنت کا شوق اور دوزخ کا خوف ،اللہ کی دوستی میں پختہ یقین اور اعمال نامے کی خوبصورتی ،یہی وہ ایمان ہے یہی قرآنی تعلیمات ہیں جو ہر مذہب ،ہر عقیدے میں تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ ایک جیسے ہیں ۔اگر آج کا پاکستانی اپنے اپنے عقیدے کے مطابق الہامی تعلیمات پر کاربند ہوجائے تو شر کے ہاتھوں مغلوب یہی سولہ کروڑ انسان خیر کی بہت بڑی قوت بن جائیں گے ۔جب تک اکائی سیدھی نہیں ہوتی ،اجتماعیت ٹیڑھی ہی رہے گی ۔اصلاح احوال کا واحد حل صالحیت میں ہے اور انسانی دل ودماغ زیادہ دیر تک صالح اعمال سے دور نہیں رہ سکتے ۔اس لئے میرا ایمان ہے کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل اب بھی ممکن ہے ۔شرط یہ ہے کہ ہرپاکستانی قرآن کی فطرتی تعلیمات سے جڑ جائے ۔اگر کوئی عیسائی ہے تو وہ حضرت عیسیؑ کی آفاتی ہدایات پر عمل کرکے کسی مذہب اور عقیدے نے جھوٹ کو نیکی قرار نہیں دیا ،ظلم کو جواز نہیں بخشا ،خیانت کو صلاحیت نہیں کہا ۔انسان دشمنی کو بہادری قرار نہیں دیا ۔کرپشن کو عزت کا موجب نہیں ٹھہرایا ۔ہم جان بوجھ کر اپنے ضمیر کو سلادیں اور قرآن وسنت سے دور ہوجائیں اور پھر ناکامیوں کا واویلا کریں تو اس سادگی پر شیطان بھی قہقے لگائے گا اور چیخ چیخ کر کہے گا ۔
حیرت ہوتی ہے مجھے اس حضرتِ انسان پر
اعمال بد تو خود کرے، لعنت کرے شیطان پر
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاﺅ گے
خواب ہو جاﺅ گے افسانوں میں ڈھل جاﺅ گے
اپنی مٹی پہ ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مر مر پہ چلو گے تو پھسل جاﺅ گے
دے رہے ہیں جو لوگ تمہیں رفاقت کا فریب
ان کی تاریخ پڑھوگے تو دہل جاﺅ گے
تیز قدموں سے چلو اور تصادم سے بچو
بھیڑ میں سست چلو گے تو کچل جاﺅ گے