May
06
|
Click here to View Printed Statement
ضد کا کوئی علاج نہیں۔محض احتجاجی سیاست کی بُنیاد پر قد بڑھانے ہوں تو یہ مُلک اس طرز سیاست کے لئے بہت ہی زرخیز ہے۔لیکن اگر واقعتا مقصد کاروباری ترقی اور ذہنی و سماجی سکون ہے تو پھر یہ فلسفہ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ رات آٹھ بجے مارکیٹیں بند کرنے سے بزنس کمیونٹی تباہ ہوجائے گی۔ دنیا بھر کے اوقات کار کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ روزانہ آٹھ گھنٹے کا کام ایک نارمل لائف اسٹائل کے لئے بہترین ٹائم ٹیبل ہے۔ مزدور اور کارکن کے بنیادی حقوق بھی یہی طے ہوئے ہیں کہ آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام نہ لیا جائے ۔پاکستان ایسے خوش نصیب ملکوں میں شمار ہوتا ہے جہاں اوقات نماز کی پابندی ہماری عمومی زندگی کا حصہ ہے۔ نماز فجر کے لئے اٹھنا انتہائی افضل عمل ہے۔دنیا میں بل گیٹس جیسے کامیاب افراد کی زندگی میں سحر خیزی اور جلد سو جانے کو بنیادی وصف قرار دیا گیا ہے ۔ ہمارے والدین نے ہمیں یہی سکھایا تھا کہ نماز فجر ادا کریں ۔صبح کی سیر کریں’ناشتہ کریں اور کام پر لگ جائیں۔ جب تک ہم اسی قدرتی نظام الاوقات پر عمل پیرا رہے تب تک صحت مند زندگی کے لطف اٹھاتے رہے اور جوں ہی ہم نے دوپہر تک سونے اور رات 2بجے تک جاگنے کے غیر فطری رویے اپنانا شروع کئے چہروں کی رونق عنقا ہوگئی۔ رت جگوں کی مار پڑنے لگی اور روشنیوں کی چکا چوند میں کاروبار جاری رکھنے سے سماجی اور طبی مسائل جنم لینے لگے۔
بجلی بحران گذشتہ پندرہ بیس برسوں میں شدید ہوا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ہمارے ہاں رات کو کاروبار جاری رکھنے اور مارکیٹیں اور بازار کُھلے رکھنے کی لت کراچی سے یہاں آئی۔اور دیکھے ہی دیکھتے ہمارے دیہات بھی اس عذاب میں گرفتار ہوگئے۔اب یہ عادت بد اس قدر پُختہ ہوگئی ہے کہ اگر اسلام آباد میں مارکیٹیں رات آٹھ بجے اور شادی ہال رات دس بجے بند کرنے کا فیصلہ ہوا ہے تو ہمارے مزاج گرامی اس فیصلے کو کسی دشمن طاقت کا حملہ تصور کررہے ہیں۔یہ کہا جارہا ہے کہ یہ تاجروں کے پیٹ پر لات ماری جارہی ہے۔ ان کے بچوں کو بھوکا رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اگر یہ فیصلہ گاہکوں اور شہریوں کے لئے کسی پریشانی کا سبب ہوتا تو پھر شہریوں کی طرف سے کوئی احتجاج ہونا چاہیے تھا۔لیکن ایسا کوئی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ دکانداروں کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ اسلام آباد کے شہری نکلتے ہی رات کوہیں۔ اگر آٹھ بجے دکانیںبند ہوجائیں گی تو لوگ خریداری کیسے کریں گے۔ ہوسکتا ہے کہ وقتی طور پر شہریوں کی عادت بدلنے میں کچھ وقت لگے۔لیکن شہریوں کے لئے اسلام آباد میں ہفتہ اتوار کی دو روزہ چھٹی ہوتی ہے۔ وہ ہفتہ کے دن بھرپور خریداری کرسکتے ہیں۔
ایک دکاندار اگر صبح دس بجے بھی دکان کھولے تو رات آٹھ بجے تک بہت وقت ہوتا ہے۔ جس نے کسی ہنگامی صورتحال میں کچھ خریدنا یا بیچنا ہے اسے کوئی دقت نہیں ہوگی۔
آخر دنیا میں دیگر ترقی یافتہ ممالک بھی ہیں۔ وہاں کاروبار ہوتے ہی دن کی روشنی میں ہیں۔چین’ جاپان’امریکہ اور سعودی عرب۔ وہاں نہ کسی کا کاروبار رکتا ہے نہ کسی کے پیٹ پر لات پڑتی ہے۔ یہ انوکھی منطق صرف اور صرف پاکستان میں ہی پیش کی جاتی ہے۔
یہ اللہ پاک کا حکم ہے ۔اوقات کی خدائی تقسیم ہے کہ دن کوکاروبار کرو اور رات تمہارے آرام کے لئے بنائی گئی ۔ ہر دور کا اسلامی تمدن گواہی دیتا ہے کہ مسلمانوں نے وقت کی اسی خدائی تقسیم پر عمل کیا ہے۔ اقبال نے تو آداب سحرگاہی کو دانائی و بینائی کی بنیاد بتایا ہے۔جو رات گئے تک بھائو تائو کرتے ہیں اور مصنوعی روشنیوں میں ناقص مال فروخت کریں انہیں سحر گاہی کا مزا کیسے آئے گا۔
حکومت کو کوئی کمزوری نہیں دکھانی چاہیے۔ لیکن محض حکم دے دینے سے معاملات سلجھ نہیں سکتے۔ تاجروں کے نمائندوں کو پہلے اعتماد میں لینا چاہیے۔ انہیں قائل کرنا چاہیے۔اور پولیس گردی سے تاجروں کو بچانا چاہیے۔مارکیٹیں ہرحال میں آٹھ بجے بند ہونی چاہیں۔ اسے محض بجلی کی کمی سے نہیں جوڑنا چاہیے۔ اسے اسلامی تعلیمات کے ساتھ منسلک کرنا چاہیے۔ ایک اچھے مسلمان کی طرح ہمیں فطرتی اوقات کار اپنانے چاہیں۔
تاجر بھائیوں سے بھی اپیل ہے کہ وہ حکومتی فیصلے کو اپنی ہار جیت کا مسئلہ نہ بنائیں۔ دو چار ماہ کے بعد یہی فیصلہ ان کے لئے رحمت بن جائے گا۔وہ گھر والوں کو وقت دے سکیں گے۔ بچوں کے ساتھ ہنس کھیل سکیں گے۔بوڑھے والدین کی خدمت کرسکیں گے اور صحت جیسی نعمت سے لطف اندوز ہوسکیںگے۔کاروبار میں ترقی رات کو جاگنے سے مشروط نہیں بلکہ ایمانداری’جائز منافع اور کوالٹی سے مشروط ہوتی ہے۔اور گاہک اور دکاندار دن کی روشنی میں ان شرائط کا بہتر تحفظ کرسکتے ہیں۔
اخباری مالکان اور ٹی وی چینلز کو بھی سوچنا چاہیے کہ رات بھر نشتریات جاری رکھنے اور خبریں بنانے سے کونسی بہتری آگئی ہیں۔میڈیا ورکرز کی اکثریت معدے کی بیماریوں میں مبتلا ہورہی ہے ۔ غیر فطری اوقات کار کے نتیجے میں بننے والی خبریں اور رپورٹیں تعمیری کی بجائے تخریبی زیادہ ہوتی ہیں۔ جاگنے اور جگانے کے اس مریضانہ کلچر کو خیرباد کہنا ہوگا کہ اللہ نے دن کام اور رات آرام کے لئے بنائی ہے۔