Jun
22
|
Click here to View Printed Statement
قارئین اکرام اور پیارے روزہ دار بہن بھائیو! چودہ صدیوں سے مسلم امہ ماہ صیام میں روزہ کی نعمت سے لطف اندوز ہورہی ہے۔ ہر سال رمضان المبارک میں ہم سحری سے افطاری تک روزہ رکھتے ہیں اور ہم سب کی کوشش ہوتی ہے کہ ہم قرآنی حکم اور اسوہ رسول ۖ کی روشنی میں اپنی اس عبادت کو جاری رکھیں ۔مجھے یقین ہے کہ آپ روزہ اور اس کی اہمیت اور اس کی برکات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ چونکہ تذکیہ سے ایمانی تقویت حاصل ہوتی ہے اس لئے اللہ کی طرف سے عطا کی گئی اس خوبصورت عبادت کے مختلف پہلوئوں کا اس حوالے سے جائزہ لیں گے۔
یہاں میں یہ بھی واضح کردوں کہ تقویٰ کے حوالے سے مختلف تشریحات ہمارے سامنے ہیں۔ تقویٰ کسی مومن کی وہ دماغی حالت ہے جہاں انسان کے اندر ارادے کی ایسی قوت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ برائی سے دور بھاگتا ہے اور اچھائی کی طرف لپکتا ہے۔ ہم آج اس نشست میں یہ دیکھیں گے کہ تقویٰ کی منزل کے حصول میں روزہ کس طرح مدد کرتا ہے ۔صیاّم کا لفظی ترجمہ ٹھہرجانے کا ہے۔”رک جانے” کو صوم کہا جاتا ہے۔ اگر آپ چل رہے ہیں تو رک جائیں۔آپ کھا رہے ہیں تو رک جائیں۔آپ پی رہے ہیں تو رک جائیں’آپ سوچ رہے ہیں تو رُک جائیں’آپ سن رہے ہیں تو رُک جائیں ‘آپ دیکھ رہے ہیں تو رُک جائیں۔
روزہ آپ کو روک دیتا ہے۔اگر کوئی شخص بُرے کام کے ارادے سے چل رہا ہے تو روزے دار کو حکم ہے کہ وہ برائی کی طرف قدم نہ بڑھائے۔اگر کوئی کھا پی رہا ہے تو روزہ رکھنے کے بعد دن کے خاص وقت تک کھانا پینا نہیں ہے۔ اگر کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے سوچ رہا ہے تو روزہ اسے ایسی سوچ ترک کرنے کی شرط لگاتا ہے۔اگر جھوٹ بول رہا ہے’واہیات بول رہا ہے ‘گالی دے رہا ہے تو روزہ کی حالت میں اسے ایسے بول بولنے سے روک دیا جاتا ہے۔ اگر وہ کوئی غیر شرعی باتیں سن رہا ہے تو روزہ دار کانوں کو بند کر لیتا ہے۔
غرض یہ کہ ہر اس کام سے روزہ انسان کو روک دیتا ہے جس سے اللہ ناراض ہوتے ہوں’ انسان کا دل دکھتا ہو’کسی کا حق مارا جاتا ہو’ شہوت اور ہوس کا راستہ کھلتا ہو۔
کیا روزہ کوئی تالا ہے ‘ کوئی زنجیر ہے ‘کوئی پردہ ہے۔ آخر کیا چیز ہے جو روزہ دار کو سب مکروہات’ مغلظات’جھوٹ فریب’ناجائز منافع خوری’ ذخیرہ اندوزی اور ہر طرح کے شیطانی اعمال اور سفلی جذبات سے رُوک لیتا ہے۔
حدیث نبویۖ ہے ‘ اللہ فرماتے ہیں”روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا”۔
پھر ارشاد ہوتا ہے’
”اگر روزہ رکھنے سے روزہ دار کے اندر اللہ کا خوف بیدار نہیں ہوا تو اللہ کو روزہ دارکی بھوک ‘پیاس سے کوئی غرض نہیں”۔
ایک جگہ ارشاد ہوتا ہوا۔
”کتنے روزہ دار ہیں جن کو بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا”۔
انسان جب یقین کر لیتا ہے کہ روزہ کا اجر اسے خالق کائنات اور رب العالمین نے دینا ہے تو پھر اس کے سامنے ”رُک ”جانے کا عمل بہت آسان ہوتا ہے۔ نماز کے لئے وہ وضو کرتا ہے۔ تین بار پانی منہ میں ڈالتا ہے ‘ چاہے تو گھونٹ اندر لے جائے۔دُنیا کی کوئی طاقت پتہ نہیں چلا سکتی کہ اس نے پانی پیا ہے یا نہیں۔لیکن یہ روزہ دار پیاسا رہتا ہے پانی کا قطرہ تک حلق سے نیچے نہیں آتا ۔ یہ ہے تقویٰ کی پہلی نشانی۔ اللہ کے ہونے’ اس کے دیکھنے اس کے حییّ القیوم ہونے پر پُختہ یقین ۔اور یہ عہد کہ پانی کا گھونٹ پینانہیں’خیانت نہیں کرنی۔ صرف اللہ کے لئے ‘ اللہ کے ہاں سے اجر پانے کے لئے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ آپ نے اسلام آباد سے لاہور جانا ہے۔ جانے کے کئی طریقے ہیں۔پیدل’ بس’ٹرین۔سب ذریعے آپ کو منزل پر لے جائیں گے۔ لیکن اگر آپ ہوائی جہاز کے ذریعے جائیں تو چار گھنٹے کا سفر ایک گھنٹے میں طے ہوجائے گا۔ تمام عبادات کا مقصد تقویٰ کی منزل کا حصول ہی ہے۔ لیکن روزہ بڑی سرعت کے ساتھ آپ کو تقویٰ کی کیفیت سے بہرہ مند کر دیتا ہے۔ اسی لئے قرآن نے سورئہ بقرہ میں فرمایا ہے کہ روزے فرض کرنے کامقصد آپ کو تقویٰ کی منزل تک پہنچانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرون اولیٰ میں جب ماہ صیام کا چاند نظر آتا تھا تو مسلمان چھتوں پر چڑھ کر خوشی سے نعرے مارتے تھے اور استقبال رمضان کے لئے تیاریاں روزوں پر آجاتی تھیں۔ میری گزارش ہے کہ روزہ محض ثواب کے لئے نہیں’ یہ کوئی رسم نہیں ‘ یہ کلچر نہیں۔یہ ایک ریفریشنگ کورس ہے۔ یہ ایک ورکشاپ ہے’ ایک ٹریننگ سیشن ہے۔ صرف ایک ہی نیتّ کہ یا اللہ میں تیرے لئے روزہ رکھ رہا ہوں اور تو ہی اس کا اجر دینے والا ہے اوراجر کا بھی ابھی سے یقین کر لیجئے کہ۔اجر تقویٰ کی کرنسی کی صورت میں ملتا ہے۔اگر کوئی شخص ماہ صیّام میں تقویٰ کی صلاحیت پا گیا گویا اس نے متقیّ ہونے کی نعمت پا لی اور متقی ہونا وہ صلاحیت ہے جو انسان کو دنیاوی اور اخروی زندگی میں کامیابی دلانے کا خدائی نسخہ ہے۔
آپ سے اتنا کہنا ہے کہ ہم اور آپ اپنے آپ کو ابھی سے روک لیں۔غیبت سے روک لیں’ریاکاری سے روک لیں’ عناد’بغض اور حسد سے روک لیں’جھوٹ اور گالی گلوچ سے روک لیں’ شرم و حیا سے عاری مناظر دیکھنے سے روک لیں’کسی کی برائی’چغل خوری سے روک لیں۔ہم رک کر آگے بڑھیں اور شاہراہ تقویٰ کی طرف قدم بڑھائیں ۔ہر روزہ کیساتھ ‘ ہر تروایح کے ساتھ ‘ ہر افطاری اور سحری کیساتھ تقویٰ کی جانب ہمارا سفر تیز ہوجائے گا اور روز عید ہم اپنے اندر وہ قوت محسوس کریں گے جو ہمیں پورا سال خیر کے راستے پر چلنے میں مدد دے گی’ بہتر طرز زندگی میں معاون بنے گی’ ہم معاشی’معاشرتی’ انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں برکات سمیٹیں گے اور خوشیاں بانٹیں گے۔